کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار دے دیں اور رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ سنا دیا۔
عدالت نے ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے سزائیں کالعدم قرار دے دیں اور کہا کہ ملزمان دوسرے کیسزمیں مطلوب نہیں تو رہا کر دیا جائے۔
بعد ازاں سندھ ہائیکورٹ نے پروین رحمان قتل کیس ملزمان کی اپیلوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ کیس کا اہم پہلو مقتولہ کا 2011 میں صحافی کو دیا گیا انٹرویو ہے، ملزمان کے وکلا کا مؤقف ہے اس انٹرویو کی کوئی حیثیت نہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ کیس میں ایک نہیں کئی شکوک وشبہات پائے گئے ہیں، ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملزمان کو دی گئی سزا کالعدم قرار دی جاتی ہے، ملزمان اگر کسی اور کیس میں مطلوب نہیں تو ان کو رہا کیا جائے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت وکلا کا موقف تسلیم کرتی ہے کہ انٹرویو قابل قبولیت والا نہیں، ہوسکتا ہے انٹرویو کراچی کی امن وامان صورتحال مدنظر رکھ کر دیا گیا ہو۔
عدالت کا فیصلے میں کہنا تھا کہ جےآئی ٹی رکن نےبھی کہاکہ انٹرویومیں سیاسی جماعتوں پرالزام لگائے گئے، انہوں نے کہا جو ملزمان کیس کا سامنا کر رہے ہیں ان میں کسی پر مخصوص الزام نہیں اور پراسکیوشن نے یہ ثابت نہیں کیا ملزم رحیم سواتی کا کس سیاسی جماعت سے تعلق ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں، جائے وقوعہ سے گولیوں کے خول ہلاک ملزم بلال کے پستول سے ملتے ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ پروین رحمان کو جس ہتھیار سے قتل کیا گیا اس کے خول ملزمان کے ہتھیار سے میچ نہیں ہوئے، ملزمان کا بلال سےکوئی تعلق بھی ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پراسکیوشن نےمزید کوئی تحقیقات نہیں کی لہذا اس ثبوت کی کوئی حیثیت نہیں، کیس میں بنائی گئی جے آئی ٹی کی حیثیت کیس کے چالان سے زیادہ کی نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ میں جو چیزیں بتائی گئیں وہ پہلے ہی منظر عام پر آچکی تھیں۔
عدالت کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پرعدالت کسی ملزم کی سزایابےگناہی کافیصلہ نہیں کرسکتی ، مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی تک مکمل نہیں کی گئی، ملزمان پر قتل میں معاونت کے الزامات بھی ثابت نہیں ہوتے ہیں، کیس میں شک کا فائدہ ملزمان کو دیا جاتا ہے۔