وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کی لائف لائن ہیں مگر پاکستان کی بجائے عمران خان کی لائف لائن اور ملک کو ترسیلات بند کرنے والوں کی مذمت کرتے ہیں۔
پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ میں بھی سمندر پار پاکستانی تھا، روزگار کے لئے باہر تھا، 90 لاکھ پاکستانیوں میں سے 65 لاکھ خلیجی ممالک میں کام کر رہے ہیں، یہ لوگ پاکستان کی لائف لائن ہیں، ان کی ترسیلات کا ہماری معیشت میں اہم کردار ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا میں کنسٹرکشن کے کاروبار سے وابستہ لوگ اپنی سرمایہ کاری پاکستان میں کرتے ہیں، ان لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی ترسیلات بند کر دیں، اس کی کسی نے مذمت نہیں کی، جن امریکن پاکستانیوں نے پاکستان سے رشتہ توڑ لیا ہے ان کے بارے میں میرا موقف درست ہے۔
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو پاکستان کی یکجہتی، شہداء کی یادگاروں اور دفاعی تنصیبات پر حملہ ہوا، سمندر پار پاکستانی بھی اس معاملے پر متحد ہیں مگر باہر بیٹھا ایک طبقہ اب بھی ایسا ہے جو عمران خان کو مسیحا سمجھتا ہے اور وہ پاکستان کے خلاف لابنگ کر رہے ہیں، سوائے ان لوگوں کے باقی سب سمندر پار پاکستانیوں کی سب سے اولین ترجیح پاکستان ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ یونان میں کشتی کے حادثے پر جتنا بھی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جائے کم ہے، آزاد کشمیر، سیالکوٹ سمیت کئی علاقوں کے گھرانے اجڑ گئے ہیں، کسی نے اپنی زمین ،کسی نے اپنا زیور بیچ کر بردہ فروشوں کے حوالے کئے اور ان کے پیارے سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئے، بیرون ملک روزگار کے لئے بھجوانے کا عمل 70 کی دہائی میں شروع ہوا، پہلے اس کو ریگولرائز کیا گیا اور باقاعدہ لائسنس دیئے گئے بعد میں یہ ایک جرم کی شکل اختیار کر گیا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے اس معاملے پر حکومت کو فوری نوٹس لینا چاہیے اور اس دھندے میں ملوث لوگوں کے خلاف سخت اور فوری ایکشن لینا چاہیے، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سمیت کئی ممالک کی معیشت خراب ہے مگر پاکستان میں روزگار اور تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے، یہ بچے 35 سے 40 لاکھ دے کر گئے تھے، حکومت اور اپوزیشن سمیت پورے ایوان کی جانب سے یقین دلاتے ہیں کہ پوری قوم ان کے دکھ میں شریک ہے۔