اسلام آباد: وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2023-24 کیلئے مجموعی حجم ساڑھے 14ہزار460 ارب کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا ، بجٹ خسارہ 7573ارب روپے ہوگا، مجموعی ترقیاتی بجٹ 2500ارب مختص کیا گیا ہے،
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30سے 35فیصد اضافہ،پنشن ساڑھے17فیصد، اجرت ماہانہ32ہزار مقررکردی گئی۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کی ذمہ دار تحریک انصاف کی حکومت تھی، جس کا ایوان میں جائزہ لیا جانا چاہیئے۔
پی ٹی آئی حکومت نے جان بوجھ کر آئی ایم ایف شرائط کی خلاف ورزی کی، پی ٹی آئی کے سابق دو وزیرخزانہ نے فون کیا کہ آئی ایم ایف اپنا معاہدہ نہ کرے۔
جس سے نہ صرف مالی خسارہ ہوا، بلکہ حکومت اور آئی ایم ایف کے تعلقات بھی خراب ہوئے۔ ان کو یقین تھا کہ پاکستان کے معاشی حالات اتنے خراب ہوجائیں گے کہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ حقائق کو مسخ کرنے کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر ڈالنے کی کوشش تھی۔
لیکن اللہ کے کرم وفضل سے موجودہ حکومت نے مشکل فیصلے کئے اور ان کے ملک دشمن عزائم پورے نہیں ہوئے۔ حکومت نے نہ صرف پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا بلکہ ان کے خطرناک عزائم بھی افشاں کردیئے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ جس سے معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا، حکومت نے سیاست نہیں ریاست بچاؤ کو ترجیح دی۔
پی ٹی آئی حکومت میں قرض 49ہزار ارب تک پہنچ چکا ہے ،گردشی 2467ارب پر پہنچ گئے، سالانہ اضافہ 129ارب تھا۔موجودہ حکومت کی کوشش سے بجٹ خسارہ 7.9 فیصد سے کم ہوکر 7 فیصد رہ گیا ہے۔ بجٹ میں گریڈ ایک سے 16کے ملازمین کیلئے 35فیصداور گریڈ17سے اوپر30فیصد اضافہ، پنشن ساڑھے17فیصد، وزیراعظم نے مزدور کی اجرت میں مزید 2 ہزار روپے اضافہ کردیا ہے، بجٹ میں مزدور کی کم ازکم اجرت بڑھا کر 32 ہزار روپے مقرر کردی گئی۔
عام انتخابات کیلئے بجٹ میں 42.41 ارب روپے مختص
وفاقی بجٹ کے اہم نکات اور اہداف سے متعلق تجاویز کے تحت بجٹ میں وفاقی کابینہ نے 1150ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام کی منظوری دی ہے، ترقیاتی بجٹ رواں سال کے مقابلے میں30فیصد زیادہ ہے۔ 4فیصد اضافے کے بعد مجموعی طور پر2500ارب کا ترقیاتی بجٹ رکھا گیا ہے، آئندہ مالی سال کیلئے وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 14ہزار 460ارب روپے ہے،بجٹ میں ٹیکس محصولات کا حجم 9200ارب روپے ہے،ڈائریکٹ ٹیکسز کا حجم 3759 اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز کا حجم 5441ارب روپے ہوگا، نان ٹیکس آمدن 2963ارب روپے ہوگی۔
آئندہ برس کل مجموعی آمدن 12ہزار 163ارب روپے ہوگی،جس میں 6887ارب ہوگا، بجٹ خسارہ 7573ارب روپے ہوگا، اگلے سال مالی خسارہ جی ڈی پی کا منفی 6.1فیصد ہوگا۔ بجٹ میں دفاع 1804ارب، بی آئی ایس پی کیلئے 430ارب،صوبوں کیلئے5276ارب، سندھ کا مجوزہ ترقیاتی بجٹ 40فیصد اضافے کے بعد617 ارب روپے، پنجاب خیبرپختونخواہ کا عبوری بجٹ 4ماہ کیلئے ہے، پنجاب426 ارب، خیبرپختونخواہ268ارب، بلوچستان 248ارب کی تجویز ہے۔
آئندہ مالی سال میں صوبوں میں5ہزار276ارب روپے منتقل کئے جائیں گے۔ انفراسٹرکچر کیلئے 491.3ارب روپے،توانائی کے شعبے کیلئے 86.4 ارب روپے، وزارت مواصلات کا ترقیاتی بجٹ 35کروڑ تجویز، ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے شعبے کیلئے 263.6 ارب روپے مختص کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔وزارت دفاع کا ترقیاتی بجٹ 2 ارب 80کروڑ روپے کی تجویز ہے، وزارت خزانہ کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 3ارب 22کروڑ کی تجویز۔
اسی طرح آبی ذخائر اور شعبہ آب کیلئے 99.8 ارب روپے رکھنے کی تجویز، بجٹ میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت200 ارب روپے خرچ کرنے کی تجویز، فزیکل پلاننگ اورتعمیرات کے شعبے کیلئے 41.5 ارب روپے مختص کرنے کی منظوری ،ایوی ایشن ڈویژن کے ترقیاتی بجٹ کیلئے 5ارب 40کروڑ روپے ،صحت کے شعبے کیلئے 22.8 ارب، شعبہ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کیلئے 81.9 ارب روپے، بورڈ آف انویسٹمنٹ کیلئے ایک ارب 11کروڑ روپے کی تجویز دی گئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ڈویژن کیلئے 4ارب 5کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔بجٹ میں خصوصی علاقہ جات آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے 60.9 ارب روپے رکھنے کی منظوری دی گئی ہے۔خیبرپختونخواہ میں ضم ہونے والے اضلاع کیلئے 57 ار ب روپے رکھنے کی منظوری دی گئی ہے۔