اسلام آباد: پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروا دیا
وفاقی حکومت نے جواب میں کہا ہے کہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کروانے کی آئینی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے،سپریم کورٹ نے خود تاریخ دے کر الیکشن کمیشن کے اختیار کو غیر موثر کر دیا۔
پنجاب میں انتخابات پہلے ہوئے تو قومی اسمبلی کے انتخابات متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔وفاقی حکومت نے کہا پنجاب سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والا صوبہ ہے۔پنجاب میں جیت سے یہ تعین ہوتا ہے کہ مرکز میں حکومت کون کرے گا۔
انتخابات میں قومی اسمبلی کے ساتھ ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیے۔سپریم کورٹ اپنے 4 اپریل کے فیصلے پر نظرِثانی کرے۔سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دے کر الیکشن کمیشن کے اختیارات کو استعمال کیا۔
فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا: وزیراعظم
جب کہ نگران پنجاب حکومت نے بھی صوبے میں فوری انتخابات کی مخالفت کر دی۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے 14 مئی کو انتخابات سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کرا دیا ہے۔ پنجاب حکومت نے جواب میں کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار سپریم کورٹ کا نہیں،انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ریاست کے دیگر اداروں کو ہے۔ 14 مئی الیکشن کی تاریخ دے کر اختیارات کے آئینی تقیسم کی خلاف ورزی کی گئی،آئین کے آرٹیکل 2018 کے تحت شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔
نگران پنجاب حکومت نے کہا کہ اختیارات کی تقسیم کے پیش نظر سپریم کورٹ نے خیبر پختو نخوا الیکشن کی تاریخ نہیں دی،انتخابات پروگرام تبدیلی کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد صوبے میں سکیورٹی حالات تبدیل ہو گئے ہیں،عمران خان کی گرفتاری پر سول و عسکری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔جواب میں مزید کہا گیا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پرتشدد احتجاج اور مظاہرے ہوئے،مظاہروں میں 162 پولیس اہلکار زخمی اور پولیس کی 97 گاڑیوں کو جلایا گیا۔ پنجاب میں انتخابات کیلئے 5 لاکھ 54 ہزار سکیورٹی اہلکار درکار ہوں گے،اس وقت الیکشن ہوئے تو صرف 77 ہزار کی نفری دستیاب ہے۔