چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہو گا تو اتوار کو بھی عدالت لگائیں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے ججز، بیوروکریٹس اور سرکاری ملازمین کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ سے متعلق کیسز پر سماعت کی۔
سیکرٹری وفاقی وزارت ہاؤسنگ نےعدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے پلاتوں کی الاٹمنت سے متعلق پالیسی بنا لی ہے، پلاٹ دینے کی پالیسی سے صحافیوں، وکلاء اور دیگر کو نکال دیا گیا ہے، اب صرف وفاقی حکومت کے ملازمین کو پلاٹ دیے جائیں گے، جن سرکاری ملازمین کو پہلی اسکیم میں پلاٹ نہیں ملے، انہیں پہلے پلاٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے، اسلام آباد کے سیکٹر ایف 14، 15 اور پارک روڈ کو ڈویلپ کیا جارہا ہے جب کہ نئے سیکٹرز جی 12 اور ایف 12 ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا پلاٹ ملنا سول سرونٹس کا حق ہے، اگر یہ سرکاری ملازمین کا حق ہے تو پھر صرف افسران کی بجائے تمام سرکاری ملازمین کو ملنا چاہیے، جب پلاٹ الاٹمنٹ وفاقی حکومت کے ملازمین تک مختص کر دی گئی پھر ججز بھی اس میں نہیں ہیں، ججز کی الاٹمنٹ سے متعلق چیف جسٹس رجسٹرار کے ذریعے اتھارٹی کو بھیجیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وفاقی سرکاری ملازم جو پلاٹ لے گا وہ اس کو فروخت کر سکتا ہےَ، پانچ کروڑ کا پلاٹ چالیس لاکھ روپے کا دیا جا رہا ہے، اس شہر میں لینڈ ایکوزیشن میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، گیارہ ہزار لوگ 1960 سے انتظار میں ہیں کہ ان کو پلاٹ ملے گا، سرکار نے لوگوں سے زمینیں زبردستی لی ہیں اور انہیں آج تک معاوضہ نہیں ملا، یہ سرکاری خزانے کا پیسہ پرائیویٹ لوگوں کی جیبوں میں جائے گا، ہم لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی اجازت کیسے دے دیں، یا تو یہ پلاٹ مارکیٹ ریٹ پر دیں دوسری صورت میں تو یہ باقی شہریوں سے زیادتی ہے، یہ عدالت کس طرح بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت دے دے، 3 ارب روپیہ سرکاری خزانے سے پرائیویٹ لوگوں کی جیبوں میں چلا جائے گا، اس پیسے سے اسپتال کیوں نہ بنا دیے جائیں، مہنگائی پر قابو کیوں نہ کیا جائے، اس رقم سے تو جو بے گھر مزدور ہیں ان کو گھر بنا کر دے دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے ججز کا مفاد شامل ہو گیا ہے، مفاد کے ٹکراؤ کو اس معاملے سے کیسے ختم کیا جا سکے گا۔ اس موقع پر سینیئر وکیل اکرم شیخ ایڈووکیٹنے کہا کہ اتوار کے روز سیکرٹری اور ڈی جی کو کالز کر کے طلب کر لیا گیا، یہاں بادشاہ اور ملکہ والا نظام نہیں، یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے، اس عدالت کی کارروائی سپریم کورٹ کے ججز کو اسکینڈلائز کر رہی ہے، ایسا لگ رہا ہے جیسے سپریم کورٹ کے ججز فائدہ لے رہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم عوام کو جوابدہ ہیں اور انہی کے پیسوں پر یہاں بیٹھے ہیں، لوگوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہو گا تو اتوار کو بھی عدالت لگائیں گے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ایف 14 اور ایف 15 میں قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔