لاہور: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ فوج کا سیاسی کردار راتوں رات ختم کرنا ممکن نہیں،
برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے کچھ دھڑوں کی بحالی ممکن ہے، دیگر کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا آپشن استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ آخری راستہ ہونا چاہیے۔ حکومت کو دیکھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی کے کون سے گروپ تشدد ترک کر سکتے ہیں اور کسے بحال کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک زیادہ تر ادوار براہ راست فوجی حکومت کے رہے ہیں جب کہ باقی ادوار بھٹو اور شریف خاندانوں نے ملک پر حکومت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی وجہ سے فوج کے سیاسی کردار کو راتوں رات ختم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کا آغاز کیا جا سکتا ہے کہ اگر کسی چیز کی ذمے داری سویلین حکومت کی ہے تو پھر اختیار بھی سویلین حکومت کے پاس ہونا چاہیے۔
فوج کے سیاست میں عمل دخل سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ ذمے داری اگر جمہوری حکومت کی ہے تو اختیار بھی اُس ہی کے پاس ہونا چاہیے۔ اس طرح کوئی نظام نہیں چل سکتا کہ ذمے داری جمہوری حکومت کی ہو اور اختیار فوج کے پاس ہوں۔ انہوں نے کہا کہ فوج سے متعلق میرا مؤقف زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں، ورنہ ملک ڈیفالٹ ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کو بہت نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت میں اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں کی دلچسپی گڈگورننس سے پیدا ہوتی ہے اور اس کا ذریعہ قانون کی حکمرانی کے سوا کچھ اور نہیں جب کہ اس وقت ملک میں طاقت ور کو پکڑنے کا کوئی قانون نہیں ہے اور یہی حالات ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ملکی معیشت بحال کرنے کے لیے سرمایہ کاری لانی ہوگی۔ انہوں نے واضح کیا کہ میں نے کبھی مغرب پر الزام نہیں لگایا کہ انہوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی۔
علی پور : ٹرالر کی زد میں آکر موٹرسائیکل سوار تین افراد جاں بحق
پاکستان اور امریکا کے مابین تعلقات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی حمایت پر مبنی پالیسی سے اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ میں امریکا کے خلاف ہوں، انہوں نے کہا کہ امریکا سمیت دیگر تمام ممالک کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات ضروری ہونے چاہییں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ قاتلانہ حملے کے بعد میں احتیاط ضرور کروں گا، تاہم ایسا نہیں کہ میں خوفزدہ ہوکر اندر بیٹھ جاؤں۔ میں ضرور باہر نکلوں گا۔ میرے خلاف ایسا کوئی کیس نہیں جس پر مجھے نااہل کیا جا سکتا ہو، لیکن اس کے لیے بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ ہر دوسرے دن میرے خلاف ایک نیا مقدمہ سامنے آتا ہے۔ اگر مجھے نااہل کربھی دیا گیا تو پھر بھی انتخابات تو ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ میری غیر موجودگی میں پارٹی سربراہ کون ہوگا، اس حوالے سے وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔ ہمارے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ہم عوام میں جائیں گے۔ ہم نے ماضی میں بھی پرامن احتجاجی مظاہرے کیے ہیں، آئندہ بھی یہی لائحہ عمل اختیار کریں گے۔