اسلام آباد : سپریم کورٹ میں بلے کے نشان سے متعلق کیس کی براہ راست سماعت میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کے گھر پر چھاپے کا تذکرہ بھی ہوا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے سامنے اپنے بیان میں بیرسٹر گوہر خان نے بتایا کہ ابھی اطلاع ملی ہے کہ کچھ لوگ میرے گھر گئے ہیں، وہاں سے وہ سب کاغذات اٹھا کر لے گئے اور میرے بیٹے و بھتیجے کو بھی مارا ہے، میں جانا چاہ رہا ہوں۔
بتایا گیا ہے کہ اس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’چوہدری صاحب اس طرح ہوا ہے تو نہیں ہونا چاہیئے، اس معاملے کو دیکھیں‘، جس کے جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میں دیکھ لیتا ہوں‘ اس کے ساتھ ہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل کمرہ عدالت سے روانہ ہوگئے۔
بتایا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے، جہاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ ہیں،
آج کی سماعت کے موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر اور حامد خان دلائل دینے کے لیے عدالت کے روبرو پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ’پشاور ہائیکورٹ کا حکمنامہ آ گیا ہے،
کیا آپ نے فیصلہ پڑھ لیا ہے؟‘، اس کے جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’جی پڑھا ہے اور ہمیں علم ہے کہ آج آخری دن ہے‘، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’جی علم ہے لیکن آپ کو علم ہے کہ ہمیں آرڈر بھی دینا ہے‘۔
جس طرح نوازشریف اقتدار میں آ رہے ہیں مجھے اس سے اختلاف ہے۔ شاہد خاقان عباسی
اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشنز کی سکروٹنی اور انہیں کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان روکنے کا اختیار نہیں ہے،
الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار بھی نہیں ہے کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کو کسی بے ضابطگی کے الزام پر انتخابی نشان الاٹ نہ کرے، سیاسی جماعت ایک نشان پر آئین کے مطابق الیکشن میں حصہ لیتی ہے، کسی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان الاٹ نہ کرنا آئین کی شق 17 دو کی خلاف ورزی ہے‘۔
سماعت میں ایک موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’صرف سوشل میڈیا یا میڈیا پر الیکشن کمیشن پر الزامات عائد کرنا کافی نہیں، آپ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو بھی ثابت کریں، اسٹیبلشمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباو ڈالے گی؟
اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے تو ان کی حکومت میں کون تھا؟ کیا پی ٹی آئی نے خود چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کیا؟ پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی، اس وقت سب ٹھیک تھا اب پی ٹی آئی کہتی ہے سب ادارے ان کے خلاف ہوگئے؟
ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بالکل واضح اور سخت ترین رہا، پی ٹی آئی اگر صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈرامہ کرنا چاہتی ہے تو ادارے کمزور ہوں گے‘۔