پنجاب اسمبلی کا اجلاس 3 گھنٹے سے زائد تاخیر کے بعد شروع ہوا، اجلاس کے دوران ایک بار پھر ہنگامہ آرائی جاری رہی، اپوزیشن اراکین نے کاپیاں پھاڑیں، بعد ازاں، اسپیکر نے اجلاس کو کل 11 جنوری سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کر دیا۔
اجلاس کے آغاز سے قبل وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور عطااللہ تارڑ سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی ایوان میں داخلے پر مبینہ پابندی کے پیش نظر اسمبلی گیٹ پر پارٹی اراکین اور سیکیورٹی گارڈز گتھم گتھا ہوگئے تھے۔
اجلاس کی صدارت اسپیکر سبطین خان نے کی، اجلاس کے آغاز پر حکومت کے 25 اراکین اور اپوزیشن کے 56 ممبران شریک تھے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن رانا محمد اقبال نے کہا کہ کل ہماری تعداد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے زیادہ تھی، جب تعداد زیادہ ہو تو ہماری بات بھی سن لیا کریں۔
اسپیکر سبطین خان نے کہا کہ کل کسی نے کورم کی نشاندہی نہیں کی، کل حکومتی بنچوں کی تعداد زیادہ تھی۔
جنیوا میں وزیراعظم شہبازشریف اور نواز شریف کی ملاقات
(ن) لیگ کے خلیل طاہر سندھو نے بتایا کہ رولز معطل کرکے بدترین قانون سازی ہوتی ہے۔
اس دوران خلیل طاہر سندھو کی ایوان میں نقطہ اعتراض پر تلخ کلامی ہوئی، اقلیتی رکن اسمبلی سمیوئل یعقوب کو ڈانٹ کر بیٹھنے کا کہہ دیا گیا۔
خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ 7 سو یونیورسٹیوں کے بل تو منظور کر لیے لیکن ہمیں ایجنڈے کا بل تو دے دیا جائے۔
پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی چوہدری ظہیر الدین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو 21 بار چانس دیا کہ تعداد پوری کریں لیکن انہیں شکست ہوئی، اتنی نالائق اپوزیشن 36 سال میں نہیں دیکھی۔
چوہدری ظہیر الدین کی تقریر کے دوران اپوزیشن بنچوں کی جانب سے شور شرابا جاری رہا۔