پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان ہونے والے سٹینڈ بائی معاہدے کے بعد معاشی غیر یقینی صورتحال کے بادل چھٹنے پر امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر تیزی سے بحال ہونے لگی۔
فاریکس ایسوسی ایشن کے مطابق صبح کاروبار کے آغاز کے ساتھ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 15 روپے کم ہو کر 271 روپے کی سطح پر آگیا تھا جو تعطیلات سے قبل آخری روز 285.99 روپے پر بند ہوا تھا۔
دوسری طرف سٹیٹ بینک آف پاکستان کی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں ہفتے کے پہلے کاروباری روز کے دوران انٹر بینک میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں 10 روپے 55 پیسے کی بڑی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
Interbank closing #ExchangeRate for today https://t.co/hvtS9Cxq8l#SBPExchangeRate pic.twitter.com/iKvepZnJq6
— SBP (@StateBank_Pak) July 4, 2023
اعداد وشمار کے مطابق انٹر بینک میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت 285 روپے 99 پیسے کی کمی کے بعد 275 روپے 44 پیسے ہو گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں ہفتے کے پہلے کاروباری روز کے دوران انٹر بینک میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 3.83 فیصد کی بحالی دیکھی گئی ہے۔
1250 ارب روپے سے زائد کے ملکی قرضوں میں کمی
اُدھر روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں کمی کے بعد ملک پر 1250 ارب روپے سے زائد کے غیر ملکی قرضوں کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
دوسری طرف گزشتہ روز کی طرح اوپن مارکیٹ میں آج بھی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں 5 روپے کی تنزلی دیکھی گئی اور قیمت 280 روپے کے قریب پہنچ گئی ہے۔
ڈیفالٹ کا سوچنے والوں کو مایوسی ہوئی، ملک بوستان
نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فاریکس ایکسچینج ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما ملک بوستان نے کہا ہے کہ آج انٹر بینک میں روپے کی قدر میں 10 روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہے،روپے کی قدر میں اضافے نے ریکارڈ قائم کیا ہے، جو لوگ سوچ رہے تھے پاکستان ڈیفالٹ کرے گا، انہیں مایوسی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہبازشریف نےسٹے بازوں کو کلین بولڈ کیا ہے، آنے والے وقت میں روپےکی قدر مزید بہتر ہوگی۔ عالمی مالیاتی ادارے سے پیسے موصول ہونے کے بعد روپے کی قیمت 245 سے نیچے آ جائیگی۔
دوسری طرف طفر ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ظفر پراچہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد معیشت پر اچھا اثر آیا ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے، اب امید ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری بھی آئے گی، سٹاک بھی بہتر ہوا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن یہ بات دیکھنے والی ہے کہ ہم ریٹ کو کس حد تک کنٹرول کرسکتے ہیں، ڈالر کا نیچے آنا اور پھر اپنی جگہ قائم نہ رہنے سے لوگوں میں مایوسی پھیلتی ہے اور منفی اثرات آتے ہیں، پہلے کی طرح ایسا نہ ہو کہ ریٹ کم ہو اور پھر اوپر چلا جائے۔ اگر ہم مجموعی طور پر چیزوں کو لے کر چلیں تب تو بات بن سکتی ہے نہیں تو پاکستان کی معیشت پر طویل مدت میں مشکلات رہیں گی کیونکہ ہم نے 3 سال میں تقریباً 50 سے 55 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔