متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے وفد نے کراچی میں جس طرح ہم متاثر ہیں، جماعت اسلامی بھی متاثر ہے، ان کے پاس آئے تھے، ہمیں ان کا نکتہ نظر بڑی وضاحت سے پتا ہے، سوال یہی چھوڑ کر جا رہے ہیں کہ کیا اس حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کے نتائج قابل قبول ہوں گے
ادارہ نورِ حق میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سمجھتی ہیں کہ بنیادی جمہوریت کے بغیر جمہوریت کی موجودگی ادھوری سی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ جن ادوار میں بھی جمہوریت رہتی ہے، اس زمانے میں بنیادی جمہوریت بڑے سوالات اور قدغن لگے ہوئے ہوتے ہیں، پاکستان کی مورثی سیاست، خاندانی حکومتیں بنیادی حکومتوں (تھرڈ ٹیئر) کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم متاثر ہیں، جماعت اسلامی بھی متاثر ہے، ان کے پاس آئے تھے، ہمیں ان کا نکتہ نظر بڑی وضاحت سے پتا ہے، سوال یہی چھوڑ کر جا رہے ہیں کہ کیا اس حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کے نتائج قابل قبول ہوں گے؟ ایک دھاندلی ہو چکی ہے، اور کیا وہ انتخابات مفید بھی ثابت ہوں گے، گزارشات لے کر آئے تھے، انتظار کریں گے، انہوں نے بڑی ہمدری کے ساتھ ہماری باتیں سنی ہیں، کئی چیزوں پر ہمارا اتفاق ہے، شاید ترجیحات تھوڑی سی مختلف ہوں۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات جو کراچی اور حیدرآباد میں ہونے جا رہے ہیں، ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس میں انتخابات سے قبل پہلے ہی دھاندلی ہو چکی ہے، پہلے ہی کراچی کو آدھے سے کم گنا گیا ہے، ووٹر لسٹ بھی کنفیوژنگ ہے، کراچی اور حیدرآباد میں دو حتمی ووٹر لسٹیں موجود ہیں، اس کے علاوہ سب سے بڑا ہاتھ حلقہ بندیوں میں دکھایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے ایسے علاقے جہاں پر جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹر زیادہ بڑی تعداد میں ہیں، وہاں حلقہ بندیاں 80 سے 90 ہزار افراد اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ کی یونین کونسلیں بنی ہیں، کراچی میں ایسی یونین کونسلیں بھی ہیں، 20 سے 25 ہزار افراد پر مشتمل ہیں، بعض جگہ پر 40 ہزار افراد پر یو سی بنی ہے لیکن وہاں پر ووٹرز کی تعداد صرف 2 ہزار ہے۔
ملک میں مہنگائی عروج پر ہے: وزیر اعظم کا اعتراف
خالد مقبول صدیقی نے دعویٰ کیا کہ نارتھ ناظم آباد میں ایک یوسی ایسی بھی ہے، جہاں پر 72 ہزار کی آبادی اور ووٹرز کی تعداد 75 ہزار ہے، بہت سارے قانونی نکات اور اعداد و شمار یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ کراچی اور حیدرآباد میں پہلے ہی دھاندلی ہو گئی ہے، اگر کچھ کثر رہ گئی ہے تو الیکشن والے دن ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں اور تسلسل کے ساتھ ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ شفاف اور دیانتداری سے ہوں اور سب کو برابری کا موقع ہے، جو کہ اس حالات میں ہمیں نہیں لگتا کہ ہمیں میسر ہے، خاص طور پر سندھ کے شہری علاقوں کو، ہم عدالتوں میں بھی گئے ہیں، مذاکرات بھی کیے ہیں، اور بات چیت کا پورا موقع دیا ہے، شاید ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی رائے کو ہموار کرنے کے لیے اب احتجاج کریں، جو آئینی و قانونی حق ہے، ہم حلقہ بندیوں کے حوالے سے 9 جنوری کو احتجاج کرنے جا رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے ساتھ مذاکرات جاری ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جہاں تک بلدیاتی انتخابات کا تعلق ہے، ہمارا تجربہ یہ ہے کہ 2009 سے 2015 تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے، پیپلز پارٹی کی حکومت 2008 سے 2013 تک وفاق میں بھی رہی تھی، اور ایم کیو ایم ان کی اتحادی تھی، 2013 میں بلدیاتی ایکٹ آیا تھا، لیکن اس پورے عرصے میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے اس پورے عرصے میں عدالت اور الیکشن کمیشن کے ذریعے لڑ جھگڑ کر اس وقت انتخابات ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کا المیہ ہے کہ ایک چیز کو درست کرنے جاتے ہیں تو دوسری چیز سامنے آجاتی ہے، دوسری کو درست کرتے ہیں تو تیسری آتی ہے، لیول پلیئنگ فیلڈ تو پاکستان کے عوام کو حاصل ہی نہیں ہے۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ المیہ ہے کہ آمروں کے زمانے میں تو بلدیاتی انتخابات ہو جاتے ہیں لیکن جمہوری حکومتیں، بڑی بڑی جماعتیں انتخابات کرانے سے گریزاں ہوتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنے ہی لوگوں کو جو جیت سکتے ہیں، انہیں بھی اختیار نہیں دینا چاہتے، یہ سب ہی بڑی جماعتوں کو حال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں ووٹر لسٹیں کبھی درست نہیں ہوتیں، اس کے لیے ہم بھی 2013 میں سپریم کورٹ گئے تھے، ہم نے بہت ساری چیزیں نکالیں اور اسے درست کروانے کی کوشش کی، فیصلہ بھی ہو گیا لیکن پھر ویسے ہی لسٹ بن گئی، انتخابات پھر بھی ہوئے، 2013، 2015، 2018 اور سارے ضمنی انتخابات بھی ہوئے، جس میں ساری جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں غیر منظور شدہ مردم شماری پر انتخابات تو ہو گئے، اس میں سب نے حصہ لیا، اس لیے کہ انتخابات کا ہونا، انتخابات کے نہ ہونے سے بہت بہتر ہوتا ہے، اختیار مل جائے تو بہت اچھی بات ہے۔