اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں نگران وزیراعظم کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر 29 نومبر کو وزیراعظم، وزیر دفاع، وزیر داخلہ، سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ بھی پیش ہوں۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ جبری گمشدگی کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کیس کی سماعت ہوئی جہاں جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی، عدالتی حکم پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے تو عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ’پہلے تو آپ کو بتا دیں کہ یہ کیس ہے کیا تاکہ صورتحال واضح ہو جائے،
آج اس کیس کی 21ویں سماعت ہے، اس سے قبل یہ کیس جسٹس اطہر من اللہ جو چیف جسٹس تھے ان کے پاس تھا، عدالت کے حکم پر کمیشن بنا، اس میں سوالات پیش کئے گئے۔
سکیورٹی فورسز کے قافلے پر دیسی ساختہ بم کا دھماکہ، 2 سپاہی شہید
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کا معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجا گیا کیوں کہ صرف ایک کا نہیں 51 بلوچ طلبہ کا معاملہ تھا اس لیے ہم نے ملک کے وزیراعظم کو معاملہ بھیجا حالاں کہ وزیراعظم کو خود احساس ہونا چاہیئے تھا، ہم سمجھے وہ آ کر کہیں گے یہ ہمارے بچے ہیں اگر ان کے خلاف کوئی کرمنل کیس تھا تو رجسٹرڈ کرتے، آپ رپورٹ پڑھیں جو ہمیں پیشی کی گئی ہے۔
دوران سماعت اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن نے وزراء کمیٹی کے اجلاس کی رپورٹ پیش کی، ایک صفحے پر مشتمل چھ نکات کی رپورٹ پیش کی گئی، رپورٹ پر جسٹس محسن اختر کیانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ کی کاپی واپس کردی اور ریمارکس دیئے کہ اس رپورٹ پر اس عدالت کے لیے یہ شرم کا مقام ہے،
وزیراعظم اور وزیر داخلہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں، وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو احساس ہونا چاہیئے تھا کہ یہ بلوچ طلباء کا معاملہ ہے۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر 29 نومبر کو وزیراعظم کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ وزیر دفاع، وزیر داخلہ، سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ بھی پیش ہوں، 55 لاپتہ افراد پیش کریں ورنہ وزیراعظم پیش ہوں۔