اسلام آباد وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے دہشت گردوں کیخلاف ضرب عضب جیسے فوجی آپریشن کا عندیہ دے دیا، کہتے ہیں کہ پشاور پولیس لائنز دھماکہ سانحہ اے پی ایس سے کم نہیں‘ اس وقت بھی تمام سیاستدان اکھٹے ہوئے تھے‘ اب بھی قوم کو تمام تر اختلافات کے باوجود اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کرسکتی ہے، امید ہے وزیراعظم آپریشن ضرب عضب جیسا کوئی فیصلہ کریں گے تاہم دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب آپریشن جیسا اتفاق رائے پیداکرنے کی ضرورت ہے، پیپلز پارٹی کے دور میں یہ جنگ سوات سے شروع ہوئی اور 2015ء سے 2017ء تک دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑی گئی
خواجہ آصف نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے پر اسی ہال میں ہمیں بریفنگ دی گئی اور کہا گیا ان سے بات چیت ہو سکتی ہے اور یہ امن پر آ سکتے ہیں، مختلف آرا سامنے آئیں لیکن کوئی فیصلہ سامنے نہیں آ سکا، دہشت گردی کے بیج ہم نے خود بوئے، افغانستان میں روس نے مداخلت کی تو ہم نے اپنی سروسز کرائے پر دے دیں، امریکہ کے واپس جانے کے بعد ہم 10 سال تک ان حالات سے نمٹتے رہے، وہ 10 سال گزرے تو نائن الیون آ گیا، پریڈ لین کی مسجد میں جو کچھ ہوا وہ سب کو یاد ہو گا۔
پشاور خود کش حملے کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی خراسان گروپ نے قبول کی ہے، رانا ثنا اللہ
انہوں نے کہا کہ ایک دو سال پہلے ان لوگوں کو یہاں لا کر بسانا تباہ کن فیصلہ ثابت ہوا، دہشت گردوں کا کلمے یا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اسی لیے گزشتہ روز مسجد میں نماز کے وقت اگلی صف میں دہشت گرد کھڑا تھا، حالاں کہ عبادت کے وقت حملہ ہمارے دشمن ممالک میں بھی نہیں ہوتا، کل کے سانحے میں 100 کے قریب شہادتیں ہوئیں، کئی لوگ ملبے تلے دب گئے جنہیں آج دوپہر تک بھی نکالا گیا، کل وزیراعظم اور آرمی چیف بھی پشاور گئے جہاں انہیں بریفنگ دی گئی۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ہم نے ڈیڑھ دو سال قبل جو بھی فیصلے کیے تھے وہ اس ہاؤس نے قبول نہیں کیے، کل پشاور میں بہائے جانے والے خون کا حساب کون دے گا؟ یہ کون بتائے گا کہ کون آکر لوگوں کے پیاروں کی جان لے گیا؟ اس واقعے کی جتنی مذمت کی جانی چاہئے اتنی آواز نہیں آ رہی، حالاں کہ دہشت گردی کے خلاف ساری قوم کو متحد ہونا چاہیے۔