لاہور ہائی کورٹ نے صحافی عمران ریاض خان کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر ضمانت منظور کر لی، پٹیشن میں تمام 18 مقمدمات کو یکجا کرنے یا مقدمات ختم کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
جسٹس علی باقر نجفی نے درخواست کی سماعت کی، جو عمران ریاض خان کے وکلا شاہزیب مسعود، میاں علی اشفاق، رانا عبدالمعروف خان اور میاں اظہار احمد کی جانب سے دائر کی گئی۔
پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایک الزام میں ایک ہی ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے، عمران ریاض خان کو الگ الگ مقدمے میں گرفتار کرنا غیر قانونی ہے۔
درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ عمران ریاض خان کو لاہور ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے اور لاہور ہائیکورٹ عمران ریاض خان کو رہا کرنے کا حکم دے۔
درخواست میں پنجاب حکومت اور پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) کو مدعا علیہ نامزد کیا گیا تھا۔
عمران ریاض خان کو غداری کے متعدد مقدمات کا سامنا ہے، جنہیں منگل کی رات کو اٹک پولیس نے اسلام آباد کے قریب سے گرفتار کیا تھا، بعد ازاں انہیں جمعرات کو مقامی عدالت سے ریلیف ملا، تاہم انہیں فوری طور پر چکوال پولیس کی ٹیم نے احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا تھا۔
بعدازاں انہیں لاہور منتقل کرنے سے قبل ضلع چکوال کی مقامی عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ کی اجازت دی تھی۔
شہباز شریف عوام کو جلد پٹرولیم قیمتوں پر بڑا ریلیف دینگے: مریم نواز
عمران ریاض خان کے خلاف منظر عام پر آنے والی تازہ ترین ایف آئی آر میں شکایت کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ وہ انٹرنیٹ براؤز کر رہے تھے جب اس نے صحافی کا ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں پاکستانی فوج پر تنقید کی گئی، محمد آصف نے الزام لگایا کہ عمران ریاض نے فوج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور سیاست میں ملوث ہو کر ریاست کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا تھا۔
شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ عمران ریاض نے کہا تھا کہ فوج نے پاکستان کی سالمیت کو داؤ پر لگا دیا ہے، صحافی نے فوج کے افسران اور دیگر اہلکاروں کو اکسانے کا جرم کیا۔
عمران ریاض خان کے وکلا نے عام تعطیل والے دن کیس کی سماعت کرنے پر لاہور ہائی کورٹ کا شکریہ ادا کیا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ یہ ہمارا فرض ہے. ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔
عمران ریاض خان کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ جب ایف آئی آر درج ہوئیں تو اگلے دن عمران ریاض عدالت میں تھے لیکن انہیں اسلام آباد ٹول پلازہ سے گرفتار کر لیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ جن ایف آئی آرز میں انہیں گرفتار کیا گیا، اس کا ریکارڈ پولیس نے لاہورہائیکورٹ سے چھپایا۔