لاہور: لاہور ہائی کورٹ میں گیس اور پیٹرولیم بحران کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل کو دلائل کے لیے طلب کرلیا۔
عدالت نے کیس کی سماعت سردیوں کی چھٹیوں کے بعد مقرر کرنے کا حکم دیا، اس موقع پر عدالت نے اوگرا کی جانب سے لائسنس جاری کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اوگرا کام ہی نہیں کررہی، لائسنس پر لائسنس جاری کیے جارہے ہیں۔
جسٹس جواد حسن کا کہنا تھا کہ تمام محکمے تگڑے ہورہے ہیں مگراوگرا تگڑا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، کسی بھی ریگولیٹر کو غریب عوام کی فکر ہی نہیں ہے۔
ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کے روبرو کہا کہ ادارہ پیٹرولیم پر نہیں بلکہ گیس پر توجہ دیتا ہے، اوگرا کی جانب سے متعدد لائسنس جاری کیے گئے جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ ظاہر کررہی ہے اوگرا کومضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
جسٹس جواد حسن نے کہا کہ موجودعدالتی فیصلے میں اوگرا اور وفاقی حکومت کا مؤقف ہی نہیں، دیکھنا یہ ہےکہ اوگرا کہاں سے آیا کس نے تگڑا کیا اور تگڑا کیوں نہیں ہوا؟
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے بتایا کہ مارکیٹ میں غیر قانونی لائسنس کی بھرمار کی گئی، عدالتی فیصلے میں تمام جوائنٹ وینچرز غیر قانونی قرار دیئے گئے ہیں۔ گزشتہ 25دنوں میں 3بلین کا نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ریفائین آئل کی گنجائش کتنی ہے اور اس میں فرق کیا ہے جس کے جواب میں اوگرا کے وکیل نے کہا کہ ریفائنریز پرانی ہیں، جس وجہ سے پیٹرول کم ریفائین کیا جاتا ہے