سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو احتجاج کے لیے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 9 اور جی 9 کے درمیان جگہ فراہم کرنے اور گرفتار وکلا کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ پی ٹی آئی لانگ مارچ کے شرکا کو ہراساں کرنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت کی، بینچ کے دیگر دو ججوں میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی شامل تھے۔
سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد سوا پانچ بجے سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے مزید وقت دینے کی استدعا کی جس کو عدالت نے منظور کی جس کے بعد اٹارنی جنرل وزیر اعظم سے ہدایات لے کر دوبارہ عدالت پہنچ گئے جس کے بعد عدالت نے حکم سنانا شروع کردیا۔
جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے حکم میں کہا کہ پی ٹی آئی کو ایچ نائن اور جی نائن کے درمیان جگہ فراہم کی جائے۔
وفاقی وزیر قانون کی سربراہی میں 8 رکنی کمیٹی بھی بنا دی گئی، جس کا اجلاس چیف کمشنر آفس میں ہوگا۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سری نگر ہائی پر ریلی جبکہ ایچ نائن میں احتجاج کی اجازت دے دی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے حکم دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے نہ مارے جائیں۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے سری نگر ہائی وے اور جی نائن گراونڈ دینے کی مخالفت کی اور کہا کہ جی نائن گراونڈ پر ریلی کی درخواست مسترد کرچکے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ چیف کمشنر کا مؤقف بھی سن لیتے ہیں، وہاں موجود چیف کمشنر اسلام آباد نے کہا کہ عدالت جو حکم دے گی اس پر عمل کیا جائے گا۔
عدالت میں پاکستان تحریک انصاف کی سرکاری اور نجی املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی یقین دہانی پر اجازت دی گئی تاہم عدالت نے سری نگر ہائی وے پر ٹریفک کے بہاؤ میں خلل نہ ڈالنے کی بھی ہدایت کردی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لوگ لاکھوں میں ہوں گے، جے یو آئی نے جہاں جلسہ کیا وہاں صرف 15 ہزار لوگوں کی گنجائش ہے۔
کراچی میدان جنگ بن گیا، پولیس شیلنگ سے متعدد پی ٹی آئی کارکن زخمی
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اتحادی جماعتوں کے وزرا کو بھی مذاکراتی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے، وزیر قانون کی سربراہی میں فیصل سبزواری، آغا جان، اسعد محمود اور خالد مگسی بھی مذاکراتی کمیٹی کا حصہ ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومتی اور پاکستان تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس رات کو 10 بجے بلایا جائے اور حکم میں کہا کہ جن وکلا پر کوئی سنگین الزام نہیں ہے انہیں فوری طور پر رہا کر دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ ٹاپ لیڈر شپ اپنے ورکرز کو قانون ہاتھ میں نہ لینے کی ہدایت دے گی، امید کرتے ہیں کہ انتظامیہ طاقت کا استعمال فوری طور پر ختم کردے گی۔
حکم میں کہا گیا کہ شہریوں کے گھروں پر چھاپے نہ مارے جائیں اور شہریوں کو بلاوجہ تنگ نہ کیا جائے اور مظاہرین بھی پر امن رہیں، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ایف آئی آرز کے بغیر گرفتار تمام افراد کو فوری رہا کیا جائے تاہم جن لوگوں پر کریمنل مقدمات ہیں، ہائی کورٹ ان کا جلد فیصلہ کریں۔
قبل ازیں جب عدالت عظمیٰ میں سماعت شروع ہوئی تو جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، اسکولز اور ٹرانسپورٹ بند ہے، معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے اور دیوالیہ ہونے کے در پر ہے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے عدالت کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے، معیشت کے حوالے سے ریمارکس میڈیا کو چلانے سے روکا جائے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو معیشت سے متعلق ریمارکس سے گریز کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جو ریمارکس آپ یہاں دیتے ہیں وہ اہم مالیاتی اداروں تک بھی پہنچتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے تفصیلات کا علم نہیں، ملکی صورتحال کی معلومات لینے کا وقت دیا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال تو ہر انسان کو معلوم ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کردیا جائے گا؟ تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کر دیے گئے ہیں۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، کیا آپ کو ملکی حالات کا علم نہیں؟ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسکولز کی بندش کے حوالے سے شاید آپ میڈیا رپورٹس کا حوالہ دے رہے ہیں، میڈیا کی ہر رپورٹ درست نہیں ہوتی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اسکولز کی بندش اور امتحانات ملتوی ہونے کے سرکاری نوٹی فکیشن جاری ہوئے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے، بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں لیکن عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں، راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے۔
کہاں ہے 20 لاکھ لوگوں کا انقلاب جو ڈی چوک آنا تھا، رانا ثنا اللہ
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ماضی میں بھی احتجاج کے لیے جگہ مختص کی گئی تھی، میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے احتجاج کی اجازت کے لیے درخواست دی تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتظامیہ سے معلوم کرتا ہوں کہ درخواست پر کیا فیصلہ ہوا۔
درخواست گزار صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ پولیس، وکلا کو بھی گھروں میں گھس کر گرفتار کر رہی ہے، سابق جج ناصرہ جاوید کے گھر بھی رات گئے پولیس نے چھاپہ مارا، مظاہرین اور حکومت دونوں ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسلح افراد کو احتجاج کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔
جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ ابھی تو احتجاج شروع ہی نہیں ہوا تو مسلح افراد کہاں سے آگئے؟
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن دو مرتبہ سرینگر ہائی وے پر دھرنا دے چکے ہیں، بلاول بھٹو بھی اسلام آباد میں لانگ مارچ کر چکے ہیں، اب بھی مظاہرین کے لیے جگہ مختص کی جاسکتی ہے۔
شعیب شاہین نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کے علاوہ سارے ملک کی شاہراہوں کو بند کردیا گیا ہے، وکلا سمیت عام لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ راتوں کو لوگوں کے گھروں میں گھسا جارہا ہے، احتجاج کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایات موجود ہیں، حکومتی اقدامات غیر آئینی ہیں، ہائی کورٹ بار صرف شہریوں کے حقوق کے لیے عدالت آئی ہے۔
ساتھ ہی عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس حوالے سے زیر التوا کیسز میں جاری احکامات بھی طلب کر لیے اور سماعت میں وقفہ کردیا۔