صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے درمیان اختلافات کی بڑی وجہ ’سوشل میڈیا‘ تھی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ سوشل میڈیا کو غیرضروری اہمیت دینے کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور یوں دونوں میں اختلافات کی دیگر وجوہات میں سے ایک اہم وجہ سوشل میڈیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں فیصلہ ساز قوتیں سوشل میڈیا کو صحیح طریقے سے ’ہینڈل‘ نہیں کر پاتیں۔
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے یہ بھی کہا کہ وہ ان تمام معاملات میں اختلافات کم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی یہ عمل جاری رکھیں گے۔ میڈیا کو جب ہم ان معامالات میں ضرورت سے زائد اہمیت دیں تو خرابی پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان میں یوٹیوب دو سال تک بند رہا، اس کی وجہ یہ تھی کہ رائے بنانے والے لوگ اس کو سنبھال نہیں سکے۔ ’ہمارے ملک میں فیصلہ کرنے والے لوگ سوشل میڈیا کو درست طریقے سے ہینڈل نہیں کر پا رہے۔ میرے خیال میں اُنھیں اس کو بہتر انداز میں ہینڈل کرنا چاہیے۔
ایک سوال کہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے میں ان کے اور سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے درمیان تعلقات کا کتنا عمل دخل تھا، صدر عارف علوی نے کہا کہ ’ایسا ہوگا، یہ تو سب پریس میں موجود ہے، میرے پاس کوئی مخصوص معلومات نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ غلط فہمیاں تھیں۔ جو پبلک میں بھی آ رہی تھیں۔ میں کوشش کرتا تھا کہ غلط فہمیاں ختم ہوں، (یعنی) بیٹھو، بات کرو اور آگے بڑھو۔ میری بطور صدر پاکستان، آئینی ذمہ داری یہ ہے کہ فیڈریشن کو اکٹھا کروں۔
سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو مشورہ دیتے ہوئے صدر نے کہا کہ تعاون اختلاف سے بہتر ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ضروری ہے۔ میں سب کو یہی نصیحت کر رہا ہوں۔ پبلک میں بھی اور پرائیوٹ بھی۔ اس سوال پر کہ کیا عمران خان اور سابق آرمی چیف کے درمیان تنازع کی سب سے بڑی وجہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی ہی تھی، صدر عارف علوی نے کہا کہ وہ کسی ایک مخصوص شخص یا واقعے کی بات نہیں کریں گے۔ لیکن ان کی ثالثی کی کوششیں کامیاب کیوں نہیں ہوئیں اور تمام فریقین میں وہ کون تھے جن کا رویہ لچکدار نہیں تھا، صدر عارف علوی نے کسی کا نام لیے بغیر یہ ضرور کہا کہ تمام فریقین ہی سخت رویے کا اظہار کر رہے تھے اور یہ کہ ان کا مشورہ نہیں مانا گیا۔ ’کون تھا جو لچک نہیں دکھا رہا تھا؟ میں (اُنھیں) یہ کہہ رہا تھا کہ نظرانداز کرو۔ سوشل میڈیا بھی نظرانداز کرو۔ معیشت بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ معیشت کے اندر بہتری کے امکانات موجود ہیں، معیشت (کی خرابی) کا الارم بھی غلط ہے۔ میں سب کو یہی بتا رہا کہ اس سمت میں مت جاؤ، تعاون کرو اور کام چلاؤ۔
عارف علوی نے یہ بھی کہا کہ میری سنی گئی ہوتی تو بہتر ہوتا۔ مگر میں فلسفی تو نہیں ہوں کہ میری سنی جائے۔ اس زمانے کے سروے دیکھیں تو ساری قوم ہی یہی کہہ رہی تھی کہ بات چیت کی جائے۔ مجھے خود بھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ کون زیادہ ریلکٹنٹ تھا۔ جب میں کہتا ہوں کہ درگزر کرو تو لوگ ایسا کر نہیں پاتے۔ اور یہ سب سے مشکل کام ہے کہ میں اپنی انا کو لے جاؤں کہ میں چھوٹا آدمی صدر پاکستان بن گیا ہوں اور میں اپنی انا کو اتنا اوپر لے جاؤں کہ درگزر نہ کروں اور بدلہ لوں۔ میرے خیال میں یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
یہاں اُنھوں نے کسی فرد واحد کا نام نہیں لیا کہ وہ عمران خان کی بات کر رہے ہیں یا سابق آرمی چیف کی، البتہ اُنھوں نے یہ ضرور کہا کہ ’سیاسی میدان میں آج ہر کوئی بدلہ ہی لے رہا ہے۔