وزیراعظم شہباز شریف کی کامیاب کوششوں کے باعث بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان قرض بحالی پروگرام کےلیے حتمی ڈیل کے قریب پہنچ گئے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور ایم ڈی آئی ایم ایف کے درمیان پیرس میں ملاقات سے بریک تھرو ہوا، پروگرام بحالی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہونے کے بعد باضابطہ اعلان جلد متوقع ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کی ٹیم کے درمیان گزشتہ تین دن سے مذاکرات جاری تھے، جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب بات چیت اور نئے ڈرافٹ کی تیاری کا عمل جاری رہا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم گزشتہ تین دن سے معاملات کو طے کرنے میں مصروف تھے، ہفتے کی علی الصبح آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کی ٹیم نے نئے ڈرافٹ کو حتمی شکل دی۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے 5 بڑے مطالبات مان لئے
دوسری جانب حکومت نے آئی ایم ایف کے 5 بڑے مطالبات مان لئے، ٹیکس ہدف 9 ہزار 200 ارب روپے سے بڑھا کر 9 ہزار 415 ارب روپے کردیا گیا۔ پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی 50 کے بجائے 60 روپے کی جائے گی جبکہ جاری اخراجات میں 85 ارب روپے کی کٹوتی کا فیصلہ بھی کرلیا گیا۔
نئے ٹیکس اقدامات کا حجم 223 ارب سے بڑھا کر 438 ارب کرنے جبکہ بی آئی ایس پی بجٹ 400 ارب سے بڑھا کر466 ارب مقرر کردی گئی۔ 3 ہزار 200 ارب مالیت کے ٹیکس مقدمات نمٹانے کیلئے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ پنشن بل 761 ارب سے بڑھ کر 801 ارب تک پہنچ جائے گا، بجٹ میں صوبوں کا حصہ 5276 ارب سے بڑھ کر 5399 ارب ہوگیا۔ اگلے سال وفاقی حکومت کے اخراجات بڑھ کر 14 ہزار 480 ارب ہو جائیں گے۔
اس قبل یہ خبر آئی تھی کہ بجٹ کی منظوری سے پہلے آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ سے پھر ڈومور کہہ دیا۔ عالمی مالیاتی ادارے نے اخراجات میں کٹوتی اور ایک لاکھ ڈالر پاکستان لانے کی اسکیم واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔
حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں سالانہ ایک لاکھ ڈالر لانے والے سے آمدنی کا ذریعہ نہ پوچھنے کی اسکیم دی تھی۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم،ایف اس اسکیم میں ترامیم کا مطالبہ کردیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہےآئی ایم ایف کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ پٹرولیم لیوی بڑھانے کا اختیار پارلیمنٹ کے بجائے کابینہ کو دیا جائے،آئی ایم ایف نے بجلی کی سبسڈی کو مزید محدود کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔