اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ الیکشن لڑنے کی جو اہلیت بیان کی گئی قائداعظم بھی ہوتے تو نااہل ہوجاتے، کسی شخص کو ایک بار سزا مل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہوجاتی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سزا کے بعد کبھی انتخابات نہ لڑسکے؟۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بنچ نے تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کی، عدالت عظمیٰ کے لارجر بنچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں،
کیس کی سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ’آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلےکا دوبارہ جائزہ لیا جائے‘، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن ایکٹ کی ترمیم کو کسی نے چیلنج کیا؟
تمام ایڈووکیٹ جنرلز اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں یا مخالفت کریں گے؟‘ اس پر تمام ایڈووکیٹ جنرلز نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کردی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’اٹارنی جنرل آپ کا مؤقف کیا ہے؟ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیئے یا سپریم کورٹ کے فیصلے؟‘ اس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالت سے درخواست ہے تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے جب کہ الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے‘۔
معلوم ہوا ہے کہ سپریم کورٹ میں سماعت کے موقع پر میربادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواست گزارکے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کی اور کہا کہ ’میں نے 2018ء میں درخواست دائرکی جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا،
بانی پی ٹی آئی کو نہ نکالا جاتا تو ملک دیوالیہ ہوجاتا، حمزہ شہباز
اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل ہوچکا ہے، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 آنے پرتاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کررہا‘۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’الیکشن ایکٹ 2017ء کو کیا کسی نے عدالت میں چیلنج کیا؟‘ عدالت کو بتایا گیا کہ ’الیکشن ایکٹ کو کبھی کسی کے عدالت میں چیلنج نہیں کیا گیا،
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’تاثر ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک قانون سے سپریم کورٹ فیصلے کو اوور رائٹ کیا گیا، سمیع اللہ بلوچ کیس میں عدالت نے ایک نقطے کو نظر انداز کیا اور جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے‘۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آرٹیکل62 ون جی اور آرٹیکل 63 ون جی کی زبان ایک سی ہے، آرٹیکل63 ون جی کے تحت ملکی سالمیت اورنظریے کی خلاف ورزی کرنے والے کی نااہلی 5 سال ہے، کیا کوئی شخص حلفیہ طورپرکہہ سکتا ہے کہ وہ اچھے کردارکا مالک ہے؟
اگر 2002ء میں قائد اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے‘۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’جس فوجی آمر نے 1985 میں آئین کو روندا، اسی نے آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں شامل کیا،
ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کیسے آئین میں اہلیت کا معیار مقرر کرسکتا ہے؟ اس موقع پر جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے فیصلے میں آرٹیکل 62 اور 63 کو الگ الگ دیکھ کر غلط فیصلہ کیا‘،
جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کے فیصلے میں سقم ہے؟ اب قانون کا اطلاق ہوگا، آپ کیوں نااہل ہوئے؟‘، مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ’مس ڈیکلریشن کے سبب نااہلی ہوئی،
سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا پہلے مرحلے میں جو فیصلہ دیا، اسے دوسرے مرحلے میں بغیر وجہ بتائے تبدیل کر دیا‘۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 4 جنوری ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔