نگراں وزیراعظم بنانے سے پہلے اُس کے اختیارات بڑھانے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم ہوئی تو نگراں وزیراعظم نئے انتخابات تک محض حکومتی معاملات کی دیکھ بھال نہیں کرے گا، اہم پالیسی فیصلے لینے کیلئے بھی با اختیار ہوگا۔
پاکستان میں نگراں حکومت کیا کچھ کرنے کی مجاز ہے؟ اس سوال کا جواب الیکشن ایکٹ کی سیکشن 230 کے پہلے حصے میں موجود ہے۔ اس سکیشن کے مطابق نگران حکومت محض روزمرہ کے ضروری حکومتی معاملات ہی دیکھے گی۔ عام انتخابات یقینی بنانے میں الیکشن کمیشن کی معاونت بھی نگراں حکومت کی ذمہ داری ہے جبکہ خود کو غیر جانبدار اور غیر متنازعہ سرگرمیوں تک محدود رکھتے ہوئے وہی اقدامات کرے گی جنہیں نئی منتخب حکومت چاہے تو ختم کرسکے۔
الیکشن ایکٹ واضح پابندی لگاتا ہے کہ نگراں حکومت کوئی بڑا پالیسی فیصلہ لے گی نہ ہی اسے کوئی بڑا معاہدہ کرنے کا اختیار ہے۔ ترقیوں اور تعیناتیوں کا اختیار بھی محدود ہے، کسی بھی سرکاری افسر کا تبادلہ کرنے کیلئے الیکشن کمیشن کی اجازت لازم ہے تاہم اس ایکٹ میں مگر ترمیم سے یہ صورتحال بدل سکتی ہے۔
نگراں وزیراعظم بنانے سے پہلے اُس کے اختیارات بڑھانے کی گونج سنائی دے رہی ہے اور حکومتی وزرا الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے اشارے دے رہے ہیں۔ ذرائع وزارت قانون بھی تصدیق کرتے ہیں کہ سیکشن 230 کی شق ون اے اور سی کے علاوہ شق 2 اے ، بی اور سی میں ترمیم زیر غور ہے۔ مجوزہ ترامیم کے بعد آنے والی نگراں حکومت کو کچھ محدود معاملات پر منتخب حکومت جیسے اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ بظاہر ان ترامیم کا مقصد نگراں سیٹ اپ کو اہم معاشی فیصلوں کیلئے بااختیار بنانا ہے۔
معاون خصوصی عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ بہت ساری انٹرنیشنل کمٹمنٹ اور شرائط ایسی ہیں جن کو جاری رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ بااختیار وزیراعظم اور بااختیار کابینہ موجود ہو تاکہ وہ ان فیصلوں کو ایک منتخب حکومت کی غیر موجودگی میں کرسکے۔
قانون میں نگراں حکومت کی اصطلاح وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کیلئے استعمال ہوئی ہے۔ ایکٹ میں ترمیم ہوئی تو صوبائی نگراں حکومتوں کے اختیارات بھی بڑھ جائیں گے۔