اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ صحافی کے کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم ذمے داری لیں یا انہیں ذمے دار ٹھہرائیں جو اُن کے تابع ہیں، ریاست خود جرم میں شامل ہو تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بات ہو ہی نہیں سکتی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں ہوسکتی، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی ڈپارٹمنٹ والا کسی کو جاکر اُٹھا لے، آج تک کسی کو ٹریس نہیں کیا جاسکا، یہ تو سیدھا آرٹیکل 6 کا جرم ہے۔
لاپتہ صحافی مدثر نارو کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ ہمیں نہیں معلوم میڈیا آزاد ہے یا نہیں؟ ورنہ مِسنگ پرسنز کی تصاویر صفحہ اوّل پر ہوں، اٹارنی جنرل صاحب، آپ بتائیں عدالت کیا کرے؟
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا، مدثر نارو نے تنقید کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا کہ لاپتہ کردیا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالت کہہ سکتی ہے شہری جس دورمیں لاپتہ ہوئے اس وقت کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزرائے اعظم کےخلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کریں، ایک ہال آف شیم بنا کر تمام چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر وہاں لگا دیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر ہی کیوں لگائی جائیں؟
اسلام آباد ہائیکورٹ میں صحافی اور بلاگر مدثر نارو کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہوئی۔
وزیراعظم عمران خان نے پنجاب میں ہیلتھ کارڈ کا اجراء کردیا
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ مدثر نارو کی فیملی کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی گئی، وزیراعظم نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں، حکومت اس معاملے کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ کچھ وقت دیا جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن الله نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا کام نہیں کہ لوگوں کو ڈھونڈے، نہ ڈھونڈ سکتی ہے، ریاست کی خواہش ہی نہیں، جبری گمشدگیوں کا کمیشن بھی آئین کے خلاف بنا ہے، صرف فیملیز اس کمیشن میں جاتی ہیں جنہیں تاریخ دے دی جاتی ہے۔
عدالت کی جانب سے ریمارکس دئے گئے کہ وزیر انسانی حقوق نے کہا قانون بنا رہے ہیں، قانون کی تو ضرورت ہی نہیں، ہزاروں فیملیز ہیں جنہیں ریاست سنبھال ہی نہیں رہی، ریاست کے اندر ریاست نہیں ہو سکتی، آج تک کسی کو ٹریس نہیں کیا جا سکا، یہ تو سیدھا آرٹیکل 6 کا جرم ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ ایسا نہیں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ موجودہ حکومت کے دور میں شروع ہوا، یہ معاملہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا، ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ کتابیں لکھتے ہیں۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سب صوفی بن جاتے ہیں۔
وزیراعظم کی لاپتہ صحافی مدثر نارو کے اہل خانہ سے ملاقات، تفصیلی رپورٹ طلب
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے کا ایک بیک گراؤنڈ ہے کہ اسی ملک میں خودکش دھماکے ہوتے تھے، بہت سارے کیسز ہیں جن میں لوگوں نے اپنی مرضی سے سرحد پار کی، سینکڑوں پاکستانیوں نے جہاد کے نام پر بارڈر کراس کیا، افغانستان گئے، اب وقت آگیا ہے اسے روکا جائے، مدثر نارو نے تنقید کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا کہ لاپتہ کر دیا جائے، اٹارنی جنرل نے کہا صحافی کا کام ہے کہ وہ تنقید کرے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہے تو دہشتگرد کو بھی ماورائے عدالت نہیں مار سکتے، ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی ڈپارٹمنٹ والا کسی کو جاکر اٹھا لے، لوگ چار چار سال سے جبری گمشدگیوں کے کمیشن کےپاس جارہے ہیں، جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا جو کام تھا وہ اس نے نہیں کیا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا المیہ یہ ہے ہمیں جغرافیائی حالات، قومی سلامتی کا معاملہ بھی دیکھنا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ کل ایک ایس ایچ او کہے گا فلاں شخص اس کے خلاف بات کر رہا ہے تو اسے اٹھالو۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کہہ سکتی ہے شہری جس دور میں لاپتہ ہوئے اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف آرٹیکل 6 کی کاروائی کریں۔