وزیراعظم عمران خان کی لاپتہ صحافی مدثر نارو کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور سرکاری عہدیداروں کو ان کے ٹھکانے اور گم شدگی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کرنے کا حکم دے دیا۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ ‘مدثر نارو کے والدین اور بیٹے نے دوپہر کو وزیراعظم سے ملاقات کی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مدثرنارو کے والدین نے ان کے ساتھ پیش آنے والی مسائل سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا اور وزیراعظم نے انہیں یقین دہانی کروائی’۔
شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم نے ‘مدثر نارو کی موجودگی کے مقام اور ان کے ساتھ اصل جو پیش آیا اس پر رپورٹ طلب کی ہے’۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ‘مدثر نارو کے اہل خانہ نے وزیراعظم کی یقین دہانی پر اطمینان کا اظہار کیا’۔
لاپتہ صحافی مدثر نارو کے والدین اور کم سن بیٹے سے وزیراعظم کی ملاقات اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کو ان کی ملاقات کرنے کے حکم کے بعد ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ صحافی کے کم سن بیٹے سے تعاون کو یقینی بنائیں گے۔
آصف زرداری کا نواز شریف کے بارے میں بیان افسوس ناک ہے، شہباز شریف
یاد رہے کہ مدثر نارو اگست 2018 میں وادی کاغان میں چھٹیاں گزارنے گئے تھے جہاں وہ لاپتہ ہوگئے تھے اور ان کو آخری مرتبہ دریائے کاغان کے قریب دیکھا گیا تھا۔
ان کے اہل خانہ دوستوں نے ابتدائی طور پر یہی سمجھا کہ وہ حادثاتی طور پر دریا میں گرگئے ہوں لیکن تلاش کے باوجود سراغٖ نہیں ملا جبکہ خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ انہوں نے خود کشی کی ہو لیکن ان کے اہل خانہ اس خدشے کو رد کردیا تھا اور واضح کیا تھا وہ اس طرح کے دباؤ میں نہیں تھے۔
مدثرنارو کے اہل خانہ نے بعد ازاں نامعلوم افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ جمع کرائی تھی لیکن پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جس پر انہیں انسانی حقوق کی تنظیموں کے پاس جانا پڑا لیکن کوئی حل نہیں نکلا۔
بعد ازاں ان کے ایک دوست نے کہا کہ انہوں نے مدثر نارو کو لاپتہ افراد کے لیے بنائے گئے حراستی مرکز میں دیکھا تھا اور یہ ان کے حوالے سے آخری اطلاع تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ صحافی کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی اور مؤقف اپنایا گیا کہ لاپتہ صحافی انسانی حقوق کے کارکن تھے اور انہیں 19 اگست 2018 کو لاپتہ ہونے سے قبل ریاستی اداروں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔
اکتوبر 2018 میں لاپتہ صحافی کے والد نے درخواست گزار کے طور پر جبری لاپتہ افراد کے لیے قائم کمیشن سے رابطہ کیا اور اس کے بعد مقدمہ درج کیا گیا اور ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی گئی۔ درخواست گزار نے کہا تھا کہ انہیں جے آئی ٹی میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا جارہا ہے اور نہ ہی رپورٹ فراہم کی جارہی ہے۔