لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے میڈیا کو زیر حراست ملزمان کے انٹرویو نشر کرنے سے روک دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوا نے یوٹیوب چینل چلانے والے افراد کی جانب سے گاڑیاں روک کر شہریوں سے لائسنس طلب کرنے پر بھی پولیس افسران سے جواب طلب کیا۔
عدالتی حکم پر ڈی آئی جی آپریشن اور ڈی آئی جی انویسٹیگیشن پیش ہوئے تو ان کو بینچ کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ مسئلہ ہے کہ زیر حراست ملزمان انٹرویو پولیس کی اجازت سے کیا جاتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس میں یہ مسئلہ ہے کہ زیر حراست ملزمان کا پولیس کی اجازت سے انٹرویو لیا جاتا ہے، 90 فیصد واقعات میں یہ اعتراف جرم ہوتا ہے۔عدالت نے ڈی آئی جی آپریشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے آخری بار عدالت میں بیان دیا تھا کہ یہ سب فورا بند ہوگا۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا کہ یہ سلسلہ کہانی جرم و سزا سے شروع ہوا پھر ہر چینل پر یہ مواد شروع ہو گیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا کوئی میڈیا کا بندہ ملزم سے اعتراف کروا سکتا ہے، کیا ایک ملزم کی اجازت کے بغیر اس کا انٹرویو کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے ڈی ائی جی انویسٹیگیشن سے استفسار کیا کہ کیا پولیس یہ اجازت دے سکتی ہے؟ پروسیکیوشن کا عمل انتہائی حساس اور نجی ہے، جو ٹریفک والوں کے ساتھ کھڑے ہو کر منہ میں مائک گھسا کر انٹرویو کیے جاتے ہیں بند ہونے چاہیے، عدالت میں زیر حراست ملزمان کے انٹرویوز بھی دکھائے گئے۔
میرے ساتھ جو ہوا سو ہوا لیکن سزا پاکستان کو ملی‘ نوازشریف
عدالت نے ریمارکس دیے کوئی صحافی کسی کو زبردستی بات کرنے پر مجبور کر سکتا ہے؟ جیسے بات کرنے کی آزادی ہے ویسے ہی خاموش رہنے کی بھی آزادی ہے،
ایک صحافی کی تعلیم کیا ہوتی ہے؟ایک ریگولیٹری اتھارٹی ہونی چاہیے، ہر شخص جو کیمرہ اور مائک لے کر چل پڑے اس صحافی نہیں کہا جا سکتا.
اگر ایک صحافی آپ کے اس پاس آتا ہے اور کوئی سوال کرتا ہے تو آپ جواب نہیں دیتے تو بات ختم ہو جانی چاہیے. عدالت نے ریمارکس دیے کہ میں آرڈر پاس کر رہا ہوں کہ میڈیا زیر حراست لوگوں کا انٹرویو نہیں کر سکتا ۔
میڈیا والے کسی گاڑی والے کے پاس جا کر آئی ڈی کارڈ نہیں مانگ سکتے. عدالت نے ریمارکس دیے کہ پیمرا اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کروائے، کسی تصویر یا ویڈیو کا اپلوڈ کرنا ہی نہیں کھینچنا بھی اجازت سے مشروط ہے. اگر انٹرنیٹ پر ایسی چیزوں کو روکنا ہے تو ہمارے پاس ایف ائی اے ہی ایک ذریعہ ہے.
عدالت نے اگلی سماعت پر پیمرہ کے سینیئر افسران کو طلب کر لیا. عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی. عدالت نے حراستی ملزمان سے انٹرویو کرنے سے بھی روک دیا۔