بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومت سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا طریقہ کار طلب کرلیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کے چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد، جسٹس سجنے کشان کول، جسٹس سجنیو کھنہ، جسٹس بی آر گیوائی اور جسٹس سوریا کانت پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے بھارتی آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے نریندر مودی کی سربراہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت سے پوچھا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا کوئی ٹائم فریم یا پیش رفت کا کوئی منصوبہ بنایا گیا ہے۔
بھارتی چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد نے سماعت کے دوران مودی حکومت سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق سوال کیا۔
رپورٹ کے مطابق سماعت کے دوران چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چنداچد نے سولیسیٹر جنرل توشار مہتا سے سوال کیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قومی سلامتی سےمتعلق امور ہیں، قوم کی حفاظت بذات خود بنیادی امر ہے لیکن آپ کو مجبور کیے بغیر کہ کیا کوئی ٹائم فریم زیر غور ہے، کیا کوئی روڈ میپ ہے؟ آپ اور اٹارنی جنرل اعلیٰ حکام سے ہدایات لے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب یونین کی حد بندیوں کو دیکھتے ہیں تو ایک طرف مثال چندی گڑھ کی ہے جو پنجاب سے نکال لی گئی ہے اور بدستور یونین سرحد ہے، پھر مخصوص علاقوں میں پیش رفت ہوتی ہے اور یونین کی سرحد بن جاتی ہے، آپ فوری طور پر اس کو ریاستیں نہیں بنا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا، جس کے تحت بھارت کے دیگر شہروں کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیدادیں حاصل کرنے اور مستقبل رہائش کی اجازت حاصل ہوگئی ہے۔ آرٹیکل 370 کے باعث بھارت کی پارلیمنٹ کے پاس دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ ریاست میں قوانین نافذ کرنے کے محدود اختیارات تھے۔
دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی ناجائز تنسیخ کی سماعت کے دوران بھارتی سپریم کورٹ میں گواہی دینے والے ٹیچر کو مودی حکومت نے نوکری سے نکال دیا۔
گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول سرینگر کے سینئیر لیکچرار ظہور احمد بھٹ کو آرٹیکل تین سو ستر کے خلاف گواہی مہنگی پڑ گئی۔ ظہور احمد بھٹ نے بیان دیا تھا کہ 2019 کے بعد طلبہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم اب بھی ایک جمہوریت ہیں ۔ بھارتی چیف جسٹس مودی سرکار کے اوچھے ہتھکنڈوں پر سخت برہم ہوگئے۔ حکومت سے جواب طلب کرلیا۔ عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے مودی سرکار کی شدید مذمت کی گئی ہے۔