اسلام آباد : عالمی بینک نے پاکستان کو 15 کروڑ ڈالر فراہم کرنے کیلئے رضامندی ظاہر کردی۔ ورلڈ بینک کی جانب سے پاکستان کو انرجی سیکٹر منصوبے کیلئے 13 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی رقم بطور قرض ملے گی،
میڈیا رپورٹس کے مطابق ورلڈ بینک کی جانب سے پاکستان کو انرجی سیکٹر منصوبے کیلئے 13 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی رقم بطور قرض ملے گی، اس کے ساتھ عالمی بینک پاکستان کو ڈیڑھ کروڑ ڈالر گرانٹ کے طور پر بھی فراہم کرے گا۔
بتایا گیا ہے کہ منصوبے کا مقصد توانائی شعبے کی کارکردگی میں بہتری لانا اور اس کا تحفظ ہے، منصوبے کے تحت کمرشل، انڈسٹریل اور رہائشی عمارتوں کو گیس سے بجلی پر منتقل کیا جائے گا، منصوبے پر عمل درآمد سے سالانہ 291 ارب 65 کروڑ روپے بچت کا تخمینہ لگایا گیا ہے، توانائی کی بچت کرنے والی عمارتوں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور توانائی کے شعبے میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو بھی فروغ دیا جائے گا۔
علاوہ ازیں عالمی بینک نے کم تنخواہ والے ملازمین پر ٹیکس لگانے کی تجویز واپس لے لی، عالمی بینک کی ترجمان نے کہا کہ ٹیکسوں کے نفاذ کیلئے کسی قسم کی سفارش نہیں کر رہے، عالمی بینک پاکستان کے ٹیکس سسٹم میں ایسی جامع اصلاحات کی سفارش کرتا ہے جن کے نتیجے میں ٹیکسوں کا بوجھ امیر افراد پر بڑھے اور غریب افراد کو ریلیف حاصل ہو،
فلسطینیوں کو پاکستانی قوم کی مکمل سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت حاصل ہے: آرمی چیف
تاہم کسی بھی قسم کی تجویز دینے کیلئے نئے اعداد وشمار کا جائزہ لینا ضروری ہے کیوں کہ تجویز 2019ء کے اعداد و شمار کی بنیاد پر جاری کی گئی جس کو حالیہ مہنگائی اور لیبر مارکیٹ کی صورتحال کے مطابق اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف عالمی بینک نے پاکستان کی نجکاری کے طریقہ کار پر سوالات اٹھا دیئے، اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ سیاسی مداخلت یا عدالتوں میں کیسز سے نجکاری کا عمل متاثر ہو گا، پاکستانی حکومتی کمپنیوں کا منافع جنوبی ایشیائی ممالک میں سب کم ہے،
پاکستان کا نجکاری پروگرام 2007ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے رک گیا ہے، سپریم کورٹ کے پاکستان اسٹیل ملز اور ریکوڈک فیصلوں سے پاکستان کا عالمی سطح پر امیج معاہدوں کی پاسداری نہ کرنے والے ملک کے طور پر ابھرا۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ حکومت کی طرف سے سرمائے پاکستان قانون سے مختلف اداروں کی نجکاری میں مزید تاخیر ہوئی، پاؤر سیکٹر اداروں کی نجکاری لیبر یونین کی وجہ سے نہ ہو سکی،
کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد بھی کارکردگی عدم اطمینان بخش رہی، سیاسی جماعتیں بھی نجکاری پروگرام پر متفق نہیں ہیں، حکومتی کمپنیوں کو دوسرے ممالک کی حکومتی کمپنیوں کو نجکاری کیخلاف عدالتوں میں کیسز کا امکان ہے، حکومت ان کمپنیوں کو اسٹاک مارکیٹ پر لائے اور اس کے بعد شفاف انداز میں نجکاری کرے۔