حالیہ روس یوکرین جنگ نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اس جنگ میں ایک جانب روس ہے تو دوسری جانب مغربی ممالک اور اُن کا فوجی اتحاد یعنی نیٹو ہے۔ ان مغربی ممالک میں امریکا، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور یورپی یونین کے رکن ممالک شامل ہیں۔
لیکن جناب دوسری طرف بھی اب وہ پرانا سوویت روس نہیں ۔۔ بلکہ نئی رشین فیڈریشن ہے جو ہاپر سونک ہتھیاروں اور میزائلوں سے لیس تو ہے ہی ۔۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ چین جیسی سپر پاور کا بھی اتحادی ہے۔
یہ بات تو نہایت واضح ہے کہ نیٹو گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے روس کے بار بار منع کرنے کے باوجود مشرقی یورپی ممالک کو اپنی رکنیت دے رہا تھا اور اِس طرح وہ آہستہ آہستہ روس کی جانب پیشقدمی کر رہا تھا۔ اِس پیش قدمی کو روکنے کے لیے بالآخر روس کو جنگ جیسا انتہائی قدم اٹھانا پڑا کیونکہ یوکرین وہ آخری ملک ہے جس کے رکن بننے کے بعد نیٹو عین روس کے سر پر پہنچ جاتا۔
اب ذرا یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ تیسری عالمی جنگ چھڑ جاتی ہے تو کون کون سے ممالک ممکنہ طور کس سپر پاور کا ساتھ دے سکتے ہیں۔
نیٹو 30 ممالک پر مشتمل ایک بڑا اتحاد ہے۔ اگر روس نے اتنے بڑے اتحاد کو چیلنج کیا ہے تو یقیناً اُس نے کچھ سوچ کر ہی ایسا کیا ہوگا۔
چین روس کا دوست ہے بالکل ایسے ہی جیسے وہ معروف کہاوت ہے کہ ۔۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ تو جناب امریکا کی دشمنی نے ٹھیک اِسی طرح چین اور روس کے درمیان قربتیں بڑھا دی ہیں۔
ترکی بھی روس کا دوست ہے مگر دوسری جانب وہ نیٹو کا رکن بھی ہے اِسی سبب وہ یوکرین جنگ کے دوران بھی غیرجانبدار ہی دکھائی دیا ہے۔ تاہم ترکی کو جلد یا بہ دیر کسی نہ کسی طاقت کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔
ایران مشرقِ وسطیٰ کا ایک اہم ملک ہے جو آج کل اِنہی مغربی طاقتوں سے جوہری مذاکرات میں مصروف ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کے برعکس ایرانی قیادت سمجھتی آئی ہے کہ اُسے کبھی نہ کبھی روسی بلاک کی ضرورت پڑے گی اِس لیے وہ روس اور چین سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرتا رہا ہے۔
شمالی کوریا کی حیثیت امریکا کے لیے کسی دردِ سر سے کم نہیں۔ در حقیقت متحدہ کوریا کو دو حصوں میں بانٹنے کا سہرا بھی امریکا کے ہی سر ہے۔ شمالی کوریا نے اپنے ایٹمی اور میزائل پروگرام سے امریکا کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔
اب آتے ہیں عالمی بساط کے ایک شاطر مہرے کی طرف ۔۔ جی ہاں ! آپ کا اندازہ بالکل ٹھیک ہے ۔۔ بھارت ۔۔ جو اپنے قیام سے ہی یعنی سرد جنگ کے دور سے اپنی بنیا ذہنیت کا کامیابی سے استعمال کرکے دونوں طرف کے مزے لُوٹتا آیا ہے ۔۔ کبھی روس کا اتحادی بن کر تو کبھی امریکی شراکت دار کی شکل میں۔
جیو اسٹریٹجک پوزیشن کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کے دو ملک یعنی پاکستان اور بھارت نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
امریکا کو جب پاکستان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اُسے اپنا اہم اتحادی قرار دے دیتا ہے اور جب امریکا کو لگتا ہے کہ اُسے چند سال پاکستان کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی تو پھر اپنے طاقتور دشمن چین کے مقابلے میں بھارت کو اپنے اہم اتحادی کا درجہ دے دیتا ہے۔
پاکستان کو دیر سے ہی سہی مگر اِس کھیل کی اب اچھی طرح سمجھ آنا شروع ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت نے امریکا کو اُس کی جگہ اور روس کو اُس کا مقام دکھا دیا ہے۔
دنیا کے 9 ممالک ایٹمی صلاحیت کے حامل اور ایٹمی اثاثوں کے مالک ہیں جن کے پاس ہزاروں کی تعداد میں مہلک ہتھیار موجود ہیں۔ اگر ۔۔ خاکم بدہن ۔۔ کوئی بڑی جنگ چھڑی تو پھر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ دنیا کی آبادی کو اپنی بقا کے علاوہ اور کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔