ماسکو: روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ بیلاروس ”جوہری طاقتوں کے کلب“ میں شامل ہو گیا ہے ۔
یہ بات انہوں نے روس کی ایمٹی توانائی کارپوریشن کے تعاون سے ہمسایہ ملک بیلا روس میں24سو میگا واٹ کے جوہری پاور پلانٹ کے مکمل ہونے پر کہی ہے.
یہ بیلا روس کا پہلا جوہری بجلی گھر ہے جو ملک کی وزارت توانائی نے روس کی ریاستی ایٹمی توانائی کی کارپوریشنRosatomکے تعاون سے مکمل کیا ہے،
جبکہ نومبر 2023میں دونوں ملکوں کے درمیان دوسرا جوہری پاور پلانٹ لگانے کا معاہدہ بھی ہوچکا ہے نئے جوہری پاور پلانٹ سے ملک کی توانائی کی ضروریات کا 40 فیصد پورا ہونے کی توقع ہے.
روسی سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق صدر پوٹن نے کہا کہ یہ ایک بڑا قدم ہے‘جوہری پاور پلانٹ کی تعمیر سے پڑوسی ملک میں ایک” نئی صنعت“ وجود میں آئی ہے انہوں نے کہا کہ اس لحاظ سے بیلاروس یقینی طور پر ایٹمی طاقت بن گیا ہے،
دنیا کے محفوظ ترین شہروں کی فہرست جاری، ابوظہبی کا پہلا نمبر
یہ جوہری پاور پلانٹ شمال مغربی بیلاروس کے شہر اسٹرویسٹ کے قریب تعمیر کیا گیا ہے 2013 میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ دس سال کے بعد 2023 میں مکمل ہوا تھا جسے آپریشنل کردیا گیا ہے رپورٹ کیا کہ یہ روس سے باہر پہلا جوہری پاور اسٹیشن ہے جو Rosatom کے 3+ جنریشن کے جدید ترین نیوکلیئر ری ایکٹر استعمال کررہاہے.
سال 2023 میں ماسکو نے بیلا روس کی بار بار کی درخواستوں کے بعد، بیلاروس میں جوہری ہتھیار منتقل کیئے بیلاروسی قیادت نے جارحانہ مغربی پالیسیوں اور یورپ میں واشنگٹن کے کچھ اتحادیوں کی سرزمین پر امریکی جوہری ہتھیاروں سے لاحق خطرے کے پیش نظرحملے کی صورت میں روس نے بیلاروس کی حفاظت کے لیے اپنے اختیار میں موجود کسی بھی ہتھیار کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہونے کا اشارہ دیا تھا.
کیف اور ماسکو کے درمیان جاری تنازع کے درمیان دونوں پڑوسیوں کے درمیان فوجی تعاون میں مزید تیزی آئی صدر پوٹن نے یوکرین کو ختم شدہ یورینیم گولہ بارود فراہم کرنے کے برطانیہ کے منصوبوں کے جواب میں مارچ 2023 میں روس میں جوہری ہتھیار رکھنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا تھا جس پر امریکا اور نیٹو اتحادیوں نے اس اقدام کو ماسکو نے لاپرواہی اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا تھا.
جولائی 2023 میں روس نے کہا کہ وہ بیلاروس سے اپنے جوہری ہتھیاروں کو واپس لینے پر غور کر سکتا ہے اگر امریکہ اور نیٹو اپنے موجودہ سیاسی راستے کو تبدیل کرتے ہیں اور واشنگٹن کے جوہری ہتھیاروں کو یورپ سے ہٹاتے ہیں اور اس کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کر دیتے ہیں تاہم ابھی تک صورتحال میں تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی دنیا پر منڈلاتے جوہری تنازعے کے خطرات ٹلے ہیں.