ویسےتو وقت کی کمی کے باعث ٹی وی دیکھنا کم ہوتا ہے مگر ٹی وی پر ہونے والی حرکتو ںپر نظر رکھتا ہوں۔
پاکستانی ٹی وی چینلز پر آئے روز ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جس کو دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے اور ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ ریٹنگ کے لئے انسان کتنا گرسکتا ہے کہ کبھی وہ انسان سے ناگن بن جائے ، کبھی وہ بیچ پروگرام میں زبردستی آم کھلانے لگے اور کبھی اسٹیج پر دوڑ لگانے لگے۔
اس میں کو ئی شک نہیں ریٹنگ کی دنیا میں وہ سب سے اوپر ہے اور اس کو معلوم ہے کہ ریٹنگ کیسے لانی ہے اور اسی ریٹنگ کی چکر میں وہ ہر بے ہودہ حرکت کرجاتا ہے۔وہ ایک مسلک کے ساتھ ہوتا ہے تو دوسرے مسلک کے خلاف زہر اُگلتا ہے اور دوسرے مسلک کے ساتھ ہوتا ہے تو تیسرے مسلک کے خلاف زہر اگلتا ہے ، مقصد اس موقع پر اپنی واہ واہ کروانا اور اپنے آپ کو اس ماحول میں قابل قبول قبول بنوانا ہوتا ہے جس کے لئے وہ ہر قسم کی منافقت کرجاتا ہے۔ ایک پارٹی کے خلاف ہوتا ہے، پھر ایک وقت آتا ہے کے اسی پارٹی کا رُکن بن جاتا ہے۔
ایک سیاسی لیڈر کےساتھ ہوتا ہے اور پھر ایک وقت آتاہے اسے غدار کہہ دیتا ہے ۔ پھر اچانک سے اس غدار کو اپنانے کی بات کرتا ہے۔ اور موصوف ابھی جس پارٹی میں ہے اس کے لیڈر کے خلاف بھی ان کی غلیظ گفتگو سامنے آچکی ہے۔یہ موصوف کبھی ایک چینل میں ہوتے ہیں تو کبھی دوسرے میں ، اور کبھی تیسرے میں ۔ دوسرے چینل میں جاکر پہلے کے خلاف بولتےہیں اور پھر اچھی آفر یا پھر ڈیل پر واپس اس چینل کی جانب دوڑ پڑتے ہیں۔بار بار تھوک کرچاٹا جاتا ہے اور پاکستانی عوام واہ واہ کرتی رہتی ہے۔ کبھی اسلامی اسکالر بن جاتا ہے، تو کبھی پروگرام کا میزبان،تو کبھی باورچی تو کبھی ڈانسر۔
حیرت انگیز بات یہ ہےکہ ہر صاحب بصیر ت پاکستانی کو اس شخص کی حقیقت کا علم ہے مگر پھر بھی مجسم منافقت کو ایم این اے کی کرسی دے دی جاتی ہے۔ اب عوام اگر یہ دیکھے گی ایک پارٹی کا لیڈ ر کسی کو ٹکٹ دے رہا ہے تو اس میں کچھ تو قابلیت ہوگی اور وہ اسی بنیاد پر دوبارہ سے اسے اپنا لیتے ہیں۔
اس طرح کے لوگ دراصل بہروپئیے ہوتے ہیں، مداری ہوتے ہیں جو اپنی عجیب و غریب حرکتوں سے لوگوںکا دل لبھاتے ہیں ۔تاکہ ریٹنگ چلتی رہے اور کاروبار پھلتا پھولتا رہے۔یعنی ہر وہ کام کرجانا جس سے ریٹنگ آسمانوں پر جائے ، باقی عزت سے کیا سروکار۔جملے بازی ، پھرکی لینا، حاضر جوابی بظاہر یہ ٹیلنٹ ضرور ہے مگر یہ صرف انسانوں کا مذاق اُڑانے کے لئے استعمال ہو تو اس سے بد ترین کوئی چیز نہیں ہوسکتی ہے ۔ یہ ٹیلنٹ پھر زہر کا کام انجام دیتی ہے جو لوگوں کے دل میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے بیچ بودیتا ہے۔
جس کا موقف ہر چند بعد بدل جائے وہ تخلیقی صلاحیت کا نہیں بلکہ تخریبی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔جس کا موقف گرگٹ کی طرح بدلتا ہو وہ آخر کس طرح اپنے زبان پر قائم رہے گا۔ ایک پل میں کچھ اور دوسرے پل میں کچھ۔
یعنی مکمل منافت ، کھلی منافقت اور انسانوں کو حکم ہے کہ منافق لوگوں سے دور رہا جائے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ بار بار کی منافقت کے ثبوت دیکھنے کے باوجود عوام ان جیسے لوگوں کے پیچھے بھاگتی ہے۔ یاد رکھے آپ اگر ان جیسے لوگوں کو نمونہ عمل بنائیں گے تو ان کی عادتیں بھی اپنالیں گے اور پھر آپ میں بھی منافقت پیدا ہوجائے گی۔