اسلام آباد: سپریم کورٹ میں الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف سماعت شروع ہو گئی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ سماعت کررہا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ سماعت کررہا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بنچ میں شامل ہیں۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کے لیے فنڈز فراہم کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ آئین کے تحت سپلمنٹری گرانٹ جاری کی جاسکتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلہ آئینی اختیار کا نہیں وسائل کی کمی کا ہے۔وزرات دفاع نے کہا سیکورٹی حالات کی وجہ سے فوج فراہم نہیں کرسکتے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا ہو سکتا ہے الیکشن کمیشن نے سوچا ہو تمام اسمبلیوں کی مدت اکتوبر میں مکمل ہوجائے گی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ کیا اس وجہ سے دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ اس سے زیادہ کوئی کیا کرسکتا ہے کہ اپنی جان کی قربانی دے۔شہداء اسی دھرتی کے سپوت ہیں۔افواج کے خاندانوں کا حوصلہ ہے کہ اپنے بچوں کو مورچوں میں بھیجتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں۔
دہشتگردی کا مسئلہ 90 کی دہائی سے ہے،ان تمام حالات کے باوجود انتحابات ہوتے رہے ہیں،دوسری جنگ عظیم میں بھی انتحابات ہوئے تھے۔کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جاسکتا ۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ افواج حکومت کے ماتحت ہیں، وہ کیسے سیکیورٹی کی فراہمی سے انکار کر سکتے ہیں؟فوج کو الیکشن ڈیوٹی کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ذمہ داری تو ذمہ داری ہوتی ہے۔
گورنر سندھ کا گوٹھ ریگولرائزیشن کمیٹی ختم کرنے کیلئے وزیراعلیٰ سندھ کو خط
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کیا 20 ارب جمع کرنا حکومت کے لیے مشکل کام ہے۔کیا عام انتخابات کی کوئی اہمیت نہیں۔صوبوں کو اندرونی و بیرونی خطراب سے بچانا وفاق کی ذمہ داری ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے الیکشن کے لیے فنڈ فراہم کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے آئین کے تحت سپلمنٹری گرانٹ جاری کی جا سکتی ہے، انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
وقفے سے قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نئے اٹارنی جنرل کو خوش آمدید کہتے ہیں، پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔ انہوں نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ اچھی نیت کے ساتھ کیس سن رہی ہے ۔ اس کیس کو لٹکانا نہیں چاہتے۔ سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کے لیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا۔سیاسی جماعتوں کے فریق بننے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے آج کل سیاسی پارہ بہت اوپر ہے۔
سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں،اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی،دو ججز کے اختلافی نوٹ کو دیکھا جن کا اپنا نقطہء نظر ہے،دو ججز کے اختلافی نوٹ کا موجودہ کیس سے براہ راست تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ جمہوریت کے لیے قانون کی حکمرانی لازم ہے،قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی،سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہو گا تو مسائل بڑھیں گے۔
اٹارنی جنرل نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کر دی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو ججز نے پہلے فیصلہ دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلہ 3/4 ہوا تو حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی۔عدالتی حکم نہیں تھا تو صدرِ مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے۔یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ اگر یہ سارا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیا جائے تو معاملہ لٹک جائے گا۔یہ کیسے ہوسکتا ہے انتخابات کی تیاری ہو اور وزیرخزانہ کہ دے پیسے نہیں ہیں۔ دوران سماعت وکیل علی ظفر نے یہ بھی کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے پیسوں کیلئے وفاق کو لکھا، کیا الیکشن کمیشن نے انتخابات کیلئے سیکیورٹی مانگی، الیکشن کمیشن نے محظ ملاقاتیں کر کے الیکشن کی تاریخ تبدیل کردی،ریاست کے ساتھ وفاداری آئینی ذمہ داری ہے۔