افغانستان میں گزشتہ ہفتے طالبان حکومت کی جانب سے لڑکیوں کے سکینڈری اسکول کھولے جانے کے چند ہی گھنٹے بعد پھر سے بند کیے جانے کے خلاف دارالحکومت کابل میں طالبات اور خواتین نے احتجاج کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آج کیے جانے والے احتجاج میں خواتین مظاہرین نے ’’اسکولوں کو کھولو‘‘ کے نعرے بھی لگائے۔ افغان طالبات اب سات ماہ سے زیادہ عرصے سے تعلیم سے محروم ہیں۔
23 مارچ کو افغانستان بھر میں ہزاروں طالبات جوش و جذبے سے ہائی اسکولوں میں پہنچی تھیں۔ افغان وزارتِ تعلیم کی جانب سے طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد بند ہونے والے لڑکیوں کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے اور کلاسز کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا۔
تاہم پہلے دن کلاسز کی ابتدا کے چند ہی گھنٹے بعد وزارتِ تعلیم نے اپنی پالیسی تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد مشتعل طالبات کا یہ کہنا ہے کہ اُنہیں دھوکا دیا گیا ہے جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے بھی اِس پر غصے کا اظہار کیا ہے۔
کابل میں خواتین مظاہرین نے ’’سکولوں کو کھولو، انصاف، انصاف‘‘ کے نعرے لگائے جبکہ بعض نے اسکولوں کی کتابیں بھی اٹھا رکھی تھیں۔
خواتین اور طالبات نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ ’’تعلیم ہمارا بنیادی حق ہے، سیاسی منصوبہ بندی نہیں ہے‘‘۔
جب طالبان جنگجو احتجاجی مظاہرے کے مقام پر پہنچے تو منتشر ہونے سے پہلے خواتین نے کچھ فاصلے تک مارچ کیا۔
واضح رہے کہ منگل کو دیر گئے جنوبی شہر قندھار میں طالبان کی اعلیٰ قیادت کے ایک اجلاس کے بعد لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش کا فیصلہ سامنے آیا تھا تاہم اس کی کوئی واضح وجہ نہیں بتائی گئی تھی۔
قندھار کو طالبان تحریک کی اصل طاقت اور روحانیت کا مرکز مانا جاتا ہے۔