مقبوضہ بیت المقدس: ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اب بھی غزہ کے لوگوں کو بے گھر کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بعض دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر غزہ سے فلسطینیوں کی رضا کارانہ نقل مکانی پر کام کررہے ہیں۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ان کایہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب دوسری جانب غزہ میں گھمسان کی جنگ جاری ہے اور تین ماہ کی جنگ کے نتیجے میں اب تک 90 فی صد آبادی اپنے گھر بار سے محروم سڑکوں پر کھلے آسمان تلے وحشیانہ بمباری میں زندگی گذاز رہی ہے۔
اسرائیلی اخبار نے ایک رپورٹ میں کہا کہ حکمراں لیکود پارٹی کے ارکان کنیسٹ کے ایک بند پارلیمانی اجلاس کے دوران نیتن یاہو نے کہا کہ وہ غزہ سے فلسطینیوں کی رضاکارانہ ہجرت کو نافذ کرنے کے منصوبے کی تیاری پرکام کر ر ہے ہیں۔
نیتن یاھو نے کہا کہ اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ وہ ممالک ہیں جو فلسطینیوں کو پناہ دے سکتے ہیں تاہم تل ابیب اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے کام کررہا ہے۔
صیہونی افواج کی نصیرت پناہ گزین کیمپ پر بمباری،درجنوں فلسطینی شہید
نیتن یاہو کی قیادت میں لیکوڈ پارٹی کے ایک رکن کنیسٹ ڈینی ڈینن نے کہا کہ دنیا پہلے ہی اس معاملے پر بات کر رہی ہے۔ کینیڈا کے امیگریشن وزیر مارک ملر نے ان معاملات کے بارے میں عوامی سطح پر بات کی جب کہ امریکی صدارتی امیدوار اور سابق سفارت کار نکی ہیلی نے بھی اس امکان کو رد نہیں کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اسرائیل میں ایک ٹیم بنانا ہوگی جو اس معاملے کو دیکھے۔
ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ غزہ سے اپنی مرضی سے فلسطینی علاقہ چھوڑ کر دوسرے ممالک میں جانے کے تیار ہیں تو ہم ان کی کیسے مدد کرسکتے ہیں۔اس کا مزید کہنا تھا کہ جنگ کے خاتمے کے بعد اس کی اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے اس معاملے کو منظم کیا جانا چاہیے۔
اخبار کے مطابق نیتن یاہو نے ڈینن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔گذشتہ نومبر میں ڈینن نے غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے لیے رضاکارانہ ہجرت کا یہ مسئلہ تجویز کیا تھا۔
جب کہ یورپی ممالک کے علاوہ بیشتر عرب ممالک نے بھی غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو مسترد کردیا تھا۔گذشتہ 7 اکتوبر سے اسرائیلی فوج غزہ پر تباہ کن جنگ مسلط کیے ہوئے ہے جس میں اب تک 20,000 سے زائد افراد شہید 55,000 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ ہزاروں لا پتا ہیں۔ شہدا اور زخمیوں میں 70 فی صد بچے اور خواتین ہیں۔