قازقستان میں گزشتہ کئی روز کی ہنگامہ آرائی نے شدت اختیار کرلی ہے اور پولیس کی فائرنگ سے درجنوں مظاہرین ہلاک ہوگئے ہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق قازقستان کے دارالحکومت الماتے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج نے پرتشدد صورت اختیار کرلی ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق مظاہرین نے ایک سرکاری عمارت میں گھسنے کی کوشش کی، جس کے بعد مظاہرین اور پولیس کے درمیان فائرنگ، شیلنگ اور پتھراؤ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
پولیس کی ترجمان سلطنت ازیربک کا کہنا تھا کہ درجنوں انتہا پسندوں نے انتظامی امور سے متعلق سرکاری عمارت اور پولیس کی تنصیبات میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
سلطنت ازیربک کا کہنا تھا کہ سرکاری تنصیبات پر حملہ کرنے والے درجنوں انتہا پسندوں کو ہلاک کردیا گیا ، ان کی لاشیں تحویل میں لے کر شناخت کی جارہی ہے۔
قازقستان کی وزارت داخلہ نے پرتشدد واقعات میں 12 پولیس اور سیکیورٹی ہالکروں کی ہلاکت جب کہ 300 سے زائد کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق کی ہے۔
دوسری جانب قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایوو نے روس کی قیادت میں مشرق وسطیٰ کی 6 سابق سوویت ریاستوں پر مشتمل اتحاد کلیکٹیو سیکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او) سے مدد مانگ لی ہے۔
قازقستان کے صدر نے الزام لگایا ہے کہ ان پرتشدد ہنگاموں میں غیر ملکی تربیت یافتہ دہشت گرد گروہ ملوث ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے قازقستان کی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا تھا جس پر کئی علاقوں میں احتجاج شروع ہوگیا تھا۔
گزشتہ روز قازقستان کے وزیر اعظم نے صدر کو استعفیٰ پیش کردیا تھا ، جس کے بعد صدر قاسم جومارت توکایوو نے کابینہ کو تحلیل کرتے ہوئے دارالحکومت میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔