آج کل چینی اور امریکی بحریہ بحر جنوبی چین میں گرنے والے امریکی لڑاکا طیارے ایف 35 سی تک پہلے رسائی کی دلچسپ دوڑ میں مصروف ہیں۔
دس کروڑ ڈالر مالیت کا ایف 35 سی طیارہ گزشتہ پیر کو بحر جنوبی چین میں امریکی طیارہ بردار بحری بیڑے یو ایس ایس کارل ونسن پہ کریش لینڈنگ کے دوران حادثے کا شکار ہوگیا تھا۔ حادثے میں سات دیگر افراد بھی زخمی ہوئے تھے۔
یہ امریکی بحریہ کا جدید ترین لڑاکا طیارہ ہے اور اس میں خفیہ آلات نصب ہیں جو ظاہر ہے کہ امریکا نہیں چاہتا کسی اور کے ہاتھ لگیں لیکن کیوںکہ یہ طیارہ بین الاقوامی سمندر میں گرا ہے اس لیے اِسے حاصل کرنے کی دوڑ قواعد کے مطابق ہے۔
اس وقت یہ بحر جنوبی چین کی گہرائیوں میں موجود ہے اور چین کا دعویٰ ہے کہ بحر جنوبی چین پر اس کا قبضہ ہے۔
چین نے 2016ء میں ایک بین الاقوامی ٹریبونل کی جانب سے اپنے خلاف آنے والے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چین کا بحر جنوبی چین پر کوئی حق نہیں۔
قومی سلامتی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی فوج اس طیارے تک پہنچنے کی پوری کوشش کرے گی جبکہ امدادی کارروائی کے لیے آنے والے امریکی بحری جہاز کو طیارے کی کریش سائٹ تک پہنچنے میں 10 دن لگیں گے۔
ایف 35 سی دراصل ایک اُڑتے ہوئے کمپیوٹر جیسا ہے۔ اس کے ذریعے آپ دیگر آلات کو بھی لنک کرسکتے ہیں جسے ایئر فورس کی اصطلاح میں سینسرز اور شوٹرز کو لنک کرنا کہا جاتا ہے۔
اس طیارے میں نیٹ ورک سے چلنے والا مشن سسٹم ہے جو دوران پرواز جمع کی جانے والی معلومات کو ریئل ٹائم شیئرنگ کی اجازت دیتا ہے۔ یہ امریکی لڑاکا جہاز دشمن کی نظروں میں آئے بغیر اُس کی فضائی حدود میں کارروائی کرسکتا ہے۔
ایف 35 سی طیارے کے بڑے پر اور طاقتور لینڈنگ گیئر اسے بحری بیڑے سے تیز اور فوری اُڑان بھرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اِس طیارے میں دنیا کا سب سے طاقتور انجن نصب ہے اور یہ 1200 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے نشانہ بنا سکتا ہے۔
یہ جہاز اپنے پروں پر دو جبکہ اندرونی حصے میں چار میزائل رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دفاعی ایوی ایشن ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال چین کے پاس یہ ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے۔