اقوام متحدہ : اقوام متحدہ نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں افغانستان میں انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کی موجودہ صورتحال بارے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں خاص طور پر طالبان کے دور میں خواتین کو ملنے والے محدود حقوق پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں کہا کہ انسانی حقوق کی صورتحال کے پیش نظر طالبان حکو مت نے تقریباً 400 خواتین کارکنوں کےکام کرنے پر پابندی لگائی ہے اور مزید 200 خواتین کارکنوں کو کام کر نےسے روکا گیا ۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ حکام نے مبینہ طور پر کہا کہ ایک غیر شادی شدہ عورت کے لیے کام کرنا نامناسب تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بہت سی خواتین کو بسوں میں سوار ہونے یا کام پر جانے کی بھی اجازت نہیں تھی کیونکہ وہ غیر شادی شدہ تھیں یا ان کے ساتھ عوامی مقامات پر جانے کے لیےمحرم نہیں تھا۔
بھارتی فوج کی بربریت؛ 2 خواتین اور بچے کو گولی مار کر قتل کرڈالا
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ افغانستان میں کابل اور دیگر مقامات پرحجاب نہ پہننے کے باعث کئی خواتین کو گرفتار بھی کیا گیا جن میں سے زیادہ تر کو ان کے محرم کے ضمانت پر دستخط کرنے کے بعد اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ مستقبل میں حجاب پہننے کے حکم پر عمل کریں گی ۔
رپورٹ میں مزید کہاکہ طالبان حکومت خواتین کے لئے اظہار رائے کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا کہ 14 دسمبر کو طالبان کی وزارت اعلیٰ تعلیم نے ایک خط جاری کیا جس میں تمام یونیورسٹیوں اور نجی تعلیمی اداروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ کتابیں ہٹا دیں جو فقہ حنفی کے خلاف سمجھی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس میں شیعہ عقائد، سیاسی جماعتوں اور طالبان کی جانب سے معزول کردہ منتخب حکومت سے وابستہ افراد کے تصنیف کردہ کتابیں شامل ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے4 اور ایک ریڈیو اسٹیشن کے 3 کارکنوں کو ستمبر اور دسمبر کے درمیان محض اپنے کام کرنے پر گرفتار کیا گیااگرچہ ان میں سے 5کو رہا کر دیا گیا، لیکن ابھی تک ایک انسانی حقوق کا کارکن نظر بند ہے اور ایک صحافی کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ۔